سوال:
محترم مفتی صاحب ! زید اپنے دوست کے کمرے میں جاتا ہے، جہاں دوست کے ساتھ ایک ہندو فرد بھی مشترک رہتا ہے اور وہاں شراب کی بوتل اور گلاس پر نظر پڑتی ہے، گفت و شنید کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ہندو فرد نے شراب پی رکھی ہے، اسی اثناء میں کھانا تیار ہوتا ہے اور سب ملکر دسترخوان میں کھانا کھاتے ہیں (ہندو فرد کے ساتھ) پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس صورت میں زید کو کھانے سے اجتناب کرنا چاہئے تھا؟ کیا زید گنہگار ہوا؟ یا کوئی کفارہ دینا ہوگا؟
جواب: کفار کے ساتھ بلا ضرورت کھانا کھانا صحیح نہیں ہے، البتہ اگر کسی مجبوری سے یا اتفاقاً اس کی نوبت آجائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، لہذا ضروری ہے کہ ایسی مجلسوں میں شرکت سے مکمل اجتناب کیا جائے، جہاں شراب پی جاتی ہو، خاص طور پر جب شرابی کے ہاتھ و منہ پر شراب لگی ہوئی ہو ، البتہ کہیں ایسی صورت پیش آجائے تو اس کا کوئی خاص کفارہ نہیں ہے، اس پر توبہ واستغفار کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیۃ: (347/5، ط: دار الفکر)
قال محمد - رحمه الله تعالى - ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز ولا يكون آكلا ولا شاربا حراما وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني فأما إذا علم فأنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل ولو شرب أو أكل كان شاربا وآكلا حراما۔۔۔۔۔۔ولم يذكر محمد - رحمه الله تعالى - الأكل مع المجوسي ومع غيره من أهل الشرك أنه هل يحل أم لا وحكي عن الحاكم الإمام عبد الرحمن الكاتب أنه إن ابتلي به المسلم مرة أو مرتين فلا بأس به وأما الدوام عليه فيكره كذا في المحيط.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی