سوال:
السلام علیکم! نبی کریم صلی الله علیه وسلم جب صحابہ کرام رضوان الله علیھم اجمعین کے ہمراہ عمرہ کے لیے تشریف لے گئے تھے، تو ھدی کے جانور بھی ساتھ تھے، جیسا کہ سورہ بقرہ کی درج ذیل آیت سے معلوم ہوتا ہے:
وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِo [البقرة، الایة: 196]
معلوم یہ کرنا تھا کہ اگر عمرہ ادا کرنا ہو، تو کیا حج کی طرح قربانی کرنا لازمی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ جانور کی قربانی کرنا عمرہ کے فرائض و واجبات میں سے نہیں ہے، البتہ اگر کوئی شخص عمرہ کی نیت سے احرام باندھ لے اور پھر کسی وجہ سے عمرہ کرنے سے رک جائے، مثلاً: دشمن کا خوف ہو یا شدید بیماری لاحق ہوجائے وغیرہ، تو ایسی صورت میں اس شخص پر لازم ہے کہ کسی شخص کو وکیل بناکر حدود حرم میں دم (جانور کی قربانی کرنا، مثلاً: بکرا، دنبہ وغیرہ) دے اور دم ادا کرنے کے بعد احرام کھول دے۔
سوال میں ذکر کردہ آیت مبارکہ میں عمرہ کی ادائیگی سے رکنے کی مذکورہ بالا صورت کا ذکر ہے، چنانچہ ذیل میں آیت مبارکہ کی مختصر تفسیر "آسان ترجمہ قرآن" سے نقل کی جاتی ہے:
مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص حج یا عمرے کا احرام باندھ لے، تو جب تک حج یا عمرے کے اعمال پورے نہ ہوجائیں، احرام کھولنا جائز نہیں، البتہ کوئی ایسی مجبوری پیش آسکتی ہے کہ احرام باندھنے کے بعد مکہ مکرمہ تک پہنچنا ممکن نہ رہے، چنانچہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ صورت پیش آئی کہ آپ اور آپ کے صحابہ عمرے کا احرام باندھ کر روانہ ہوئے، لیکن جب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے، تو مشرکین مکہ نے آگے بڑھنے سے روک دیا، اسی موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں، اور ان میں ایسی صورت حال کا یہ حل بتایا گیا کہ ایسی صورت میں قربانی کرکے احرام کھولا جاسکتا ہے، امام ابوحنیفہ (رح) کے مسلک میں یہ قربانی حدود حرم میں ہونی چاہیے۔ (حاشیہ آسان ترجمہ قرآن)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (البقرة، الاية: 196)
وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِo
الدر المختار مع رد المحتار: (باب الاحصار، 591/2، ط: دار الفکر)
وشرعا: منع عن ركن (اذا احصر بعدو او مرض) او موت محرم او هلاك نفقة حل له التحلل فحينئذ (بعث المفرد دما) او قيمته فان لم يجد بقي محرما حين يجد او يتحلل بطواف.
(قوله: بعث المفرد) أي بالحج أو العمرة الي الحرم قهستاني.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی