سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! معلوم یہ کرنا ہے کہ میرے پاپا کا فروری میں اللہ کے حکم سے انتقال ہوا، تین سال پہلے میرے والد نے اپنی وصیت تحریر کی، جس میں انہوں نے اپنے مال کی تقسیم میں اپنے چاروں بچوں اور بیوی کے حصے تحریر کئے، پوچھنا یہ ہے کہ شریعت کا اس بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا وہ مال اسی طرح تقسیم کرنا ہوگا، جس طرح انہوں نے وصیت کی ہے؟
دوسری بات یہ کہ جس گھر میں بیوہ اور بچے رہائش پذیر ہیں، وہ میری والدہ کے نام ہے، والدہ کی خواہش ہے کہ وہ اس مکان کو اپنے اس بیٹے کے نام کردیں، جو مالی طور پر تھوڑا کمزور ہے، لیکن بچے اس پر راضی نہیں ہیں، بلکہ بچے یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ اس مکان کو اپنے نام رہنے دیں، بعد کی بعد میں دیکھیں گے، تو کیا والدہ کے بعد وہ گھر بھی میراث میں آجائے گا؟ یا جس بچے کو دینے کی خواہش ہے، اس کو ہی ملے گا؟
جواب: 1) واضح رہے کہ اپنے شرعی ورثاء کے لیے وصیت کرنا شرعاً معتبر نہیں ہے، لہذا ورثاء پر ایسی وصیت پر عمل کرنا لازم نہیں ہے۔
ہاں! اگر تمام ورثاء بخوشی اس وصیت پر عمل کرنے پر آمادہ ہوں، تو اس کی اجازت ہے، ورنہ ہر وارث کو اس کا وہی حصہ دینا ضروری ہے، جو شریعت نے اس کے لیے مقرر کیا ہے۔
2) اگر آپ کے مرحوم والد نے اپنی زندگی میں مکان صرف بیوی (آپ کی والدہ) کے نام کیا ہو، اور مالکانہ تصرف اور قبضہ نہیں دیا ہو، تو وہ مکان بدستور آپ کے مرحوم والد کی ملکیت شمار ہوگا، اور مرحوم کے انتقال کے بعد ان کے شرعی ورثاء میں شریعت کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگا، اور اس صورت میں وہ گھر والدہ کا تمام ورثاء کی رضامندی کے بغیر کسی ایک وارث کے نام کرنا درست نہیں ہوگا، بصورت دیگر یہ مکان آپ کی والدہ کی ملکیت شمار ہوگا، اور وہ اس کی تنہا مالکہ ہوں گی، اس صورت میں وہ اپنا مکان جس کسی کو دینا چاہیں، دی سکتی ہیں۔
البتہ اپنی اولاد میں سے بلاوجہ کسی کو محروم کرنے یا نقصان پہنچانے کی غرض سے اس کے حصہ میں کمی کرنا یا اس کو جائیداد سے محروم کرنا بھی جائز نہیں ہے، ہاں! اگر ان میں سے کوئی زیادہ فرمانبردار ہو، یا دین دار ہو، یا اس کی مالی حالت بہتر نہ ہو، تو اس بناء پر کچھ زیادہ دینا جائز ہے۔
نیز چونکہ زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرنا شرعاً ہبہ(گفٹ) ہے، اس لیے اگر آپ کی والدہ کسی کو کچھ دینا چاہیں، تو اس کو مالک و قابض بنا کر دینا لازم ہے، اس صورت میں آپ کی والدہ کے انتقال کے بعد یہ گھر آپ کی والدہ کے ترکہ میں شامل نہیں ہوگا، بلکہ جس کو جو حصہ قابض و مالک بناکر دیا گیا، وہی اس کا مالک ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (باب ما جاء في الوصیة للوارث)
عن أبي أمامۃ الباہلي رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول فيخطبۃ عام حجۃ الوداع: "إن اللّٰہ تبارک وتعالیٰ قد أعطی کل ذي حقٍ حقہ، فلا وصیۃ لوارثٍ".
مشکوۃ المصابیح: (رقم الحدیث: 3074)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: "لا وصیۃ لوارث إلا أن یشاء الورثۃ".
عمدۃ القاری: (باب لا وصیة للوارث، 55/14، ط: دار الکتب العلمیة)
وقال المنذري: "إنما یبطل الوصیۃ للوارث في قول أکثر أہل العلم من أجل حقوق سائر الورثۃ، فإذا أجازوہا جازت، کما إذا أجازوا الزیادۃ علی الثلث".
الدر المختار: (689/5، ط: سعید)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"۔
الھندیة: (378/4، ط: رشیدیة)
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".
الدر المختار: (696/5، ط: سعید)
وفي الخانية لابأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالإبن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم..
البحر الرائق: (288/7، ط: دار الكتاب الإسلامي)
يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی