سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میرے شوہر کو ایک صاحب نے کچھ پیسے دیئے، اور کہا کہ صدقے کی گائے آپ مدرسے میں دیدیں، یا پھر غریبوں میں تقسیم کردیں، میرے شوہر نے ایک جانور خرید کر اس کا گوشت ایک غریب بستی میں تقسیم کردیا، مگر کچھ گوشت گھر لے کر آگئے، میں نے کہا یہ تو صدقہ اور میں سید اور آپ شیخ ہیں، اور آپ نہ غریب مستحق ہیں، اس لیے ہمیں یہ گوشت استعمال کرنا جائز نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ یہ جائز ہے، تم کھا سکتی ہو، میں نے وضاحت مانگی، تو کہنے لگے: کھانا ہے تو کھالیں ورنہ مجھے پکاکر دیدیں، تو وہ گوشت میں نے پکا دیا، جسے میرے شوہر اور بچوں نے کھایا، مگر میں نے نہیں کھایا، سوال یہ ہے کہ کیا اس گوشت کا ہمارے لیے کھانا درست تھا یا نہیں؟ رہنمائی فرمادیں۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ ان صاحب نے آپ کے شوہر کو کسی مدرسے یا غرباء ومساکین پر گوشت تقسیم کرنے کا وکیل بنایا تھا، لہذا وکیل کے لیے بلا اجازتِ مؤکل خود اس گوشت کا استعمال جائز نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (شروط اداء الزكوٰة، 227/2، ط: دار الكتاب الاسلامي)
وللوكيل بدفع الزكاة أن يدفعها إلي ولد نفسه كبيرا كان أو صغيرا، وإلي امرأته اذا كانوا محاويج، ولا يجوز أن يمسك لنفسه شيئا اﻩ.
إلا اذا قال: ضعها حيث شئت فله أن يمسكها لنفسه كذا في الولوالجية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی