سوال:
السلام علیکم! میری نوکرانی گاؤں میں پلاٹ پر گھر بنا رہی ہے، اس نے اس سلسلے میں کچھ مدد مانگی ہے، وہ غریب خاتون ہے، 6 بچے ہیں، شوہر کی ایک چھوٹی دکان ہے، کوئی بچہ کماتا نہیں ہے، وہ سکول جا رہے ہیں، کیا اس کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟
جواب: سوال میں پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کی نوکرانی صاحب نصاب نہیں ہے، یعنی اگر وہ ضروریات اصلیہ ( رہنے کا گھر، پہننے کے کپڑے، استعمال کے برتن وغیرہ) کے علاوہ ساڑھے باون تولے چاندی کے بقدر مالیت کی مالکہ نہیں ہے، تو وہ مستحق زکوٰۃ ہے، اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، بشرطیکہ وہ سیدہ نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (التوبة، الایة: 60)
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌo
الھندیة: (189/1، ط: مکتبه رشیدیه)
ویجوز دفعھا الی من یملک اقل من النصاب.
الدر المختار مع رد المحتار: (347/2، ط: دار الفکر)
(و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الاصلية من أي مال كان۔
(قوله: فارغ عن حاجته) قال في البدائع: قدر الحاجة هو ما ذكره الكرخي في مختصره فقال: لا بأس أن يعطي من الزكاة من له مسكن، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة، لما روي عن الحسن البصري قال كانوا يعني: الصحابة يعطون من الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من السلاح والفرس والدار والخدم، وهذا؛ لأن هذه الأشياء من الحوائج اللازمة التي لا بد للإنسان منها.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی