سوال:
مندرجہ ذیل روایت کی تحقیق فرمائیں: "ماہِ رمضان کا ابتدائی حصہ رحمت ہے، درميانى حصہ بخشش اور آخرى حصہ جہنم سے آزادى كا باعث ہے۔
جواب: سوال میں ذکرکردہ فضلیت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل روایت میں بیان کی گئی ہے،ذیل میں مکمل روایت سند،متن ،ترجمہ اورحکم کےساتھ بیان کی جاتی ہے۔
حدثنا علي بن حجر السعدي، ثنا يوسف بن زياد، ثنا همام بن يحيى، عن علي بن زيد بن جدعان، عن سعيد بن المسيب، عن سلمان قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في آخر يوم من شعبان فقال: «أيها الناس قد أظلكم شهر عظيم، شهر مبارك، شهر فيه ليلة خير من ألف شهر، جعل الله صيامه فريضة، وقيام ليله تطوعا، من تقرب فيه بخصلة من الخير، كان كمن أدى فريضة فيما سواه، ومن أدى فيه فريضة كان كمن أدى سبعين فريضة فيما سواه، وهو شهر الصبر، والصبر ثوابه الجنة، وشهر المواساة، وشهر يزداد فيه رزق المؤمن، من فطر فيه صائما كان مغفرة لذنوبه وعتق رقبته من النار، وكان له مثل أجره من غير أن ينتقص من أجره شيء» ، قالوا: ليس كلنا نجد ما يفطر الصائم، فقال: " يعطي الله هذا الثواب من فطر صائما على تمرة، أو شربة ماء، أو مذقة لبن، وهو شهر أوله رحمة، وأوسطه مغفرة، وآخره عتق من النار، من خفف عن مملوكه غفر الله له، وأعتقه من النار، واستكثروا فيه من أربع خصال: خصلتين ترضون بهما ربكم، وخصلتين لا غنى بكم عنهما، فأما الخصلتان اللتان ترضون بهما ربكم: فشهادة أن لا إله إلا الله، وتستغفرونه، وأما اللتان لا غنى بكم عنهما: فتسألون الله الجنة، وتعوذون به من النار، ومن أشبع فيه صائما سقاه الله من حوضي شربة لا يظمأ حتى يدخل الجنة "
(صحیح ابن خزیمۃ، حدیث نمبر:1887، ط:المکتب الإسلامی)
ترجمہ:
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو ہمیں ایک خطبہ دیا ، اس میں فرمایا: اے لوگو!تمہارے اوپر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ کرنے والا ہے ، اس مبارک مہینے کی ایک رات (شبِ قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اللہ تعالی نے اس مہینے کے روزے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں میں کھڑے ہونے (تراویح)کو نفل عبادت مقرر کیا ہے ، جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیےکوئی غیرفرض عبادت (سنت یا نفل )ادا کرے گا ، تواس کو رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں کے فرضوں کے برابر ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں کےستر فرضوں کے برابر ثواب ملےگا۔یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے ۔یہ ہمدردی ، غم خواری کا مہینہ ہے اور اس مہینے میں مؤمنوں کے رزق میں اضافہ کیاجاتاہے ، جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب کےحصول کے لیے) افطار کرایا،تو اس کےلیے گناہوں کی مغفرت اور دوزخ کی آگ سے آزادی کا ذریعہ ہوگااور اس کو، روزہ دار کے ذواب میں کمی کئے بغیر روزہ دار کے برابرثواب دیاجائے گا۔
حضرت سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ ہم میں سے ہر ایک کو تو افطارکرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا ۔آپﷺ نے فرمایا:اللہ تعالی اس شخص کو بھی ثواب عطاء فرمائےگا،جو ایک کھجور یا پانی کے ایک گھونٹ یالسی کے ایک گھونٹ سے کسی روزہ دار کو افطار کرادے،
یہ ایسا مبارک مہینہ ہے ،جس کا ابتدائی حصہ رحمت ہےاور درميانى حصہ بخشش اور آخرى حصہ جہنم سے آزادى كا باعث ہے۔
جس كسى نے بھى اپنى لونڈى اور غلام سے تخفيف كى اللہ تعالى اسے بخش ديتا اور اسے جہنم سےآزاد كر ديتا ہے، اس ماہ مبارك ميں چار كام زيادہ سے زيادہ كيا كرو، دو كے ساتھ تو تم اپنے پروردگار كو راضى كروگے، اور دو خصلتيں ايسى ہيں، جن سے تم بےپرواہ نہيں ہو سكتے،جن دو خصلتوں سے تم اپنے پروردگار كو راضى كر سكتے ہو وہ يہ ہيں: اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور اس سے بخشش طلب كرنااور جن دو خصلتوں كے بغير تمہيں كوئى چارہ نہيں: جنت كا سوال كرنا، اور جہنم سے پناہ مانگنا۔جس نے بھى اس ماہ مبارك ميں كسى روزے دار كو پيٹ بھر كر كھلايا اللہ سبحانہ و تعالى اسے ميرے حوض كا پانى پلائےگا ،وہ جنت ميں داخل ہونے تك پياس محسوس نہيں كرےگا۔
مذکورہ بالا روایت درج ذیل کتابوں میں ذکرکی گئی ہے۔
۱۔ فضائل رمضان لابن ابی الدنیا:69(41)،ط: دار السلف
۲۔ مسند الحارث:412/1(321)،ط: مركز خدمة السنة والسيرة النبوية
۳۔ فضائل رمضان لابن شاہین:145(16)،ط: دار ابن الأثير
۴۔ أمالي المحاملي:286(293)ط: المكتبة الإسلامية
۵۔ شعب الإیمان للبیھقی: 222/5 (3336)،ط:مکتبۃ الرشد
۶۔ فضائل الأوقات للبیھقی:146(37)،ط: مكتبة المنارة
۷۔ معالم التنزیل لمحی السنۃ البغوی:203/1،ط: دار طيبة
۸۔ الترغیب و الترھیب لقوام السنۃ:349/2(1753)،ط:دارالحدیث
۹۔ الترغیب و الترھیب للمنذری: 58/2(1448)،ط:دارالکتب العلمیۃ
روایت پر کلام:
علامہ ابن خزیمہ نے اس روایت کا باب ان الفاظ میں باندھا ہے’’ باب فضائل شهر رمضان إن صح الخبر ‘‘یعنی یہ باب ماہِ رمضان کے فضائل کے بارے میں ہے، بشرطیکہ روایت صحیح ہو۔
امام ابوحاتم رازی ؒنے اس روایت کو’’منکر‘‘ کہا ہے۔
علامہ ابن عدی ؒ نے اس روایت کو’’ عبد العزيز بن عبد الله‘‘کی سند سے نقل کرنے کے بعد فرمایا:اس راوی کی روایات میں رام طور پر ثقات کی متابعت نہیں ہوتی ہے۔
رواۃ پر کلام:
یہ روایت مذکورہ بالا کتب میں مختلف سندوں کے ساتھ بیان کی گئی ہیں ،جو مجموعی طور چار سندیں ہیں اور چاروں سندوں کا مدار ’’علی بن زید بن جدعان ‘‘پر ہے اور محدثین کرام کی ایک جماعت نے انہیں ضعیف قرار دیا اور بعض محدثین کرام نے ان پر سخت جرح کی ہے اور بعض نے ان کی بعض روایات کی تصحیح یا کم ازکم تحسین کی ہے،جیسا کہ امام ترمذی نے ’’علی بن زید بن جدعان ‘‘سے مروی ایک روایت کے بارے میں فرمایا:حدیث حسن صحیح
اور علامہ ذھبی نے ’’علی بن زید بن جدعان ‘‘کو صالح الحدیث قرار دیا اورعلامہ ابن ملقن نے انہیں’’حسن الحدیث ‘‘کہا ہے۔
علامہ ابن خزیمہ نے ان کو حافظہ کی جہت سے ضعیف قرار دیا ہے ،نہ کذب کی جہت سے۔ اور جس روایت کے روای کو حافظہ کی جہت سے ضعیف قرار دیاگیا ہو تو ایسی روایت کا ضعف کم درجے کا ہوتا ہے۔
خلاصہ کلام :
اس روایت کا تعلق ،چونکہ فضائل کے باب سے ہے اور فضائل کے باب میں ضعیف روایت قابلِ قبول ہے، لہذا اس روایت کو ضعف کی صراحت کے ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے۔
نیز واضح رہے کہ رمضان کا پورا مہینہ میں اللہ تعالی کی خصوصی رحمتوں کے نازل ہونے، بندوں کے گناہوں کی مغفرت اور جہنم سے چھٹکارے کا مہینہ ہے،اور رمضان المبارک کی یہ تینوں فضیلتیں دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہیں اور ہر عشرے کی خاص فضیلت سوال میں ذکرکردہ حدیث سے ثابت ہے، اگرچہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔
البتہ ہر عشرے کی مخصوص دعا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
اتحاف الخیرۃ المھرۃ للعلامۃ البوصیری:(69/3،(2196)،ط: دار الوطن )
وعن سلمان الفارسي- رضي الله عنه- قال: "خطبنا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أخر يوم من شعبان ۔۔۔ ". رواه الحارث بن أبي أسامة، وابن خزيمة في صحيحه ثم قال: إن صح الخبر. ومن طريقه رواه البيهقي وأبو الشيخ بن حيان.
اتحاف المھرۃ ابن الحجر العسقلانی: :( 560/5(5941)،ط: مجمع الملك فهد)
حديث (خز هب) : " يا أيها الناس قد أظلكم شهر عظيم , شهر مبارك ... " الحديث.
خز في الصيام: ثنا علي بن حجر , ثنا يوسف بن زياد , ثنا همام , عن علي بن زيد بن جدعان , عن سعيد بن المسيب , عنه , به. وقال: إن صح الخبر.
رواه البيهقي في (الشعب) من طرق: عن علي بن حجر , بهذا الإسناد. ومن طريق أخرى: عن عبد الله بن بكر السهمي , عن إياس بن عبد الغفار , عن علي بن زيد. والأول أتم ومداره على علي بن زيد، وهو ضعيف , وأما يوسف بن زياد فضعيف جدا , وأما إياس بن عبد الغفار فما عرفته.
(الزواجر عن اقتراف الکبائر لابن الحجر الهيتمي:328/1،ط: دار الفكر)
وفي سنده من صحح، وحسن له الترمذي، لكن ضعفه غيره، ومن ثم ذكره ابن خزيمة في صحيحه وعقبه بقوله إن صح.
الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي:(512/6،ط:مكتبة الرشد )
حدثنا الحسن بن محمد بن عبد الله بن شعبة بن رفاعة بن رافع بن خديج الأنصاري، حدثنا سعيد بن محمد بن ثواب، حدثنا عبد العزيز بن عبد الله أبو وهب الجدعاني، حدثنا سعيد بن أبي عروبة عن علي بن زيد عن سعيد بن المسيب عن سلمان الفارسي قال خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم آخر يوم من شعبان وأول يوم من رمضان، فقال، يا أيها الناس قد أظلكم شهر عظيم شهر مبارك فيه ليلة خير من أله شهر افترض الله صيامه وجعل قيامه تطوعا.
قال الشيخ: وعبد العزيز بن عبد الله هذا عامة ما يرويه لا يتابعه عليه الثقات
سنن الترمذی:(رقم الحدیث: 545،ط: دارالغرب الاسلامی)
حدثنا أحمد بن منيع قال: حدثنا هشيم قال: أخبرنا علي بن زيد بن جدعان، ۔۔۔۔۔الخ«هذا حديث حسن صحيح
میزان الاعتدال للذھبیؒ:(127/3،ط: دارالمعرفۃ)
- علي بن زيد بن جدعان [م، عو] .
هو على بن زيد بن عبد الله بن زهير أبي مليكة بن جذعان، أبو الحسن القرشي التيمي البصري، أحد علماء التابعين.
روى عن أنس، وأبي عثمان النهدي، وسعيد بن المسيب.
وعنه شعبة، وعبد الوارث، وخلق.
اختلفوا فيه، قال الجريري: أصبح فقهاء البصرة عميانا ثلاثة: قتادة، وعلى بن زيد، وأشعث الحدانى.
وقال منصور بن زاذان: لما مات الحسن البصري قلنا لعلى بن زيد: اجلس مجلسه.
قال موسى بن إسماعيل: قلت لحماد بن سلمة: زعم وهيب أن على بن زيد كان لا يحفظ.
قال: ومن أين كان وهيب يقدر على مجالسة [على، إنما كان يجالسه]
وجوه الناس.
وقال شعبة: حدثنا علي بن زيد - وكان رفاعا.
وقال - مرة: حدثنا على قبل أن يختلط.
وكان ابن عيينة يضعفه.
وقال حماد بن زيد: أخبرنا علي بن زيد - وكان يقلب الأحاديث.
وقال الفلاس: كان يحيى القطان يتقى الحديث عن علي بن زيد.
وروى عن يزيد بن زريع، قال: كان على بن زيد رافضيا.
وقال أحمد: ضعيف.
وروى عثمان بن سعيد، عن يحيى: ليس بذاك القوى.
وروى عباس - عن يحيى: ليس بشئ.
وقال في موضع آخر: هو أحب إلى من ابن عقيل ومن
عاصم بن عبيد الله.
وقال أحمد العجلي: كان يتشيع، وليس بالقوي.
وقال البخاري، وأبو حاتم: لا يحتج به.
وقال أبو حاتم: يكتب حديثه، هو أحب إلى من يزيد بن أبي زياد.
وقال الفسوي: اختلط في كبره.
وقال ابن خزيمة: لا أحتج به لسوء حفظه.
تحفة المحتاج إلى أدلة المنهاج لابن الملقن:(477/1،ط:دار حراء )
وفيهَا عَلّي بن زيد بن جدعَان وَهُوَ حسن الحَدِيث أخرج لَهُ مُسلم مُتَابعَة
الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي:(114/8،ط:مكتبة الرشد )
حَدثنا مُحمد بن علي، حَدثنا عثمان بن سعيد، قال: سألت يَحيى، عن علي بن زيد بن جدعان، قال: ليس بذاك القوي.
تلخيص الذهبي:(رقم الحديث:8543، 551/4،ط:دارالكتب العلمية)
ابن جدعان صالح الحديث
*أیضاً: (رقم الحديث: 8699، 613/4،ط:دارالكتب العلمية)
إسناده قوي.
العلل لابن أبي حاتم:(110/3 ،ط:مطابع الحميضي)
فقال: هذا حديث منكر؛ غلط فيه عبد الله ابن بكر ؛ إنما هو: أبان بن أبي عياش، فجعل عبدالله بن بكر «أبان» : «إياس».
الضعفاء الكبيرللعقيلي:(35/1،ط:دار المكتبة العلمية)
وذكر حديثا طويلا في فضل شهر رمضان قد روي من غير وجه ليس له طريق يثبت ثبت.
الاذكارللنووي:(31،ط:مؤسسة الرسالة)
اعلم أنه ينبغي لمن بلغه شئ في فضائل الأعمال أن يعمل به ولو مرة واحدة ليكون من أهله ، ولا ينبغي أن يتركه مطلقا بل يأتي بما تيسر منه لقول النبي صلى الله عليه وسلم في الحديث المتفق على صحته : " إذا أمرتكم بشئ فأتوا منه ما استطعتم ".
[ فصل ] : قال العلماء من المحدثين والفقهاء وغيرهم : يجوز ويستحب العمل في الفضائل والترغيب والترهيب بالحديث الضعيف ما لم يكن موضوعا.
القَولُ البَدِيعُ للسخاوي:(472، ط: مؤسسة الريان)*
قال شيخ الإسلام أبو زكريا النووي - رحمه الله - في الأذكار قال العلماء من المحدثين والفقهاء وغيرهم يجوز ويستحب العمل في الفضائل والترغيب والترهيب بالحديث الضعيف ما لم يكن موضوعاً .....وقد سمعت شيخنا مراداً يقول وكتبه لي بخطه أن شرائط العمل بالضعيف ثلاثة، الأول متفق عليه أن يكون الضعف غير شديد فيخرج من أنفرد من الكذابين والمتهمين بالكذب ومن فحش غلطه، الثاني أن يكون مندرجاً تحت أصل عام فيخرج ما يخترع بحيث لا يكون له أصل أصلاً، الثالث أن لا يعتقد عند العمل به ثبوته لئلا ينسب إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - ما لم يقله.
تعلیق أحمدفتحی علی المقنع فی علوم الحدیث:(68،ط: دارالکتب العلمیة)
يقسم الحديث الضعيف إلى أنواع كثيرة جدا، وأكثر أهل العلم على تصنيفه بحسب الأنواع الرئيسة، حيث إنها ضوابط كافية لتمييز المقبول من المردود، تدرج تحتها كافة الصورة كما أنها تبين إلى أي مدى بلغ الضعف، هل هو هين يصلح للتقوية إن وجد عائذ، أو شديد لا يصلح للتقوية، أو مكذوت مختلف جرماً؟ وهو ثلاثة أنواع:
النوع الأول: الضعيف ضعفا يسيراً، وهو أنواع كثيرة منها: « ما نشأ عن سوء الحفظ، أو الاختلاط، أوالانقطاع، أو الإرسال، أو التدليس، أو الإعضال، أو الشذوذ، أو الوهم، أو العلة القادحة، أو المضطرب، أو المقلوب .. النوع الثاني: الضعيف ضعفاً شديداً، وهو أنواع منها: « المنكر، والمتروك، والمطروح .. النوع الثالث: الموضوع..
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی