عنوان: ہسپتال کی طرف سے زکوۃ کی مد میں ڈسکاؤنٹ کی ہوئی رقم کا حکم(9438-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! ایک بندہ ہے، ان کی بیوی کا Pregnancy کا مسئلہ تھا، آخر تک ان کو normal کا کہا گیا، یعنی weekly basis پر جب بھی OPD check up وغیرہ کرواتے، تو normal کا کہتے تھے، جب بالکل آخری وقت میں patient کو لے کر جارہے تھے، تو کہا گیا کہ ان کا آپریشن ہوگا، خیر آپریشن ہوگیا، اللہ تعالی نے ان کو بیٹے کی نعمت سے نوازا، مگر اس شخص نے ضد کی وجہ سے سوچا کہ اب میں انہیں یہ سارے پیسے نہیں دونگا، میں یہ پیسے جو آپریشن کی وجہ سے ڈبل ہوچکے ہیں، یعنی 21000 سے 42000 تک، میں یہ 21000 ان سے کم کرواکر غریبوں میں تقسیم کردوں گا، تو انہوں نے زکوٰۃ فارم submit کرواکر اپنے پیسے آدھے کروالیے، اب جب انہوں نے ایک مولانا سے پوچھا، تو مولانا نے کہا کہ یہ پیسے آپ ان کو واپس کردیں، جب وہ شخص دوبارہ گیا، تو انہوں نے کہا کہ ہم زکوٰۃ کی مد میں پیسے نہیں لیں گے، کیونکہ ہمارے پاس مختلف مذاہب کے ضرورت مند لوگ آتے ہیں، جس میں ہندہ وغیرہ بھی ہوتے ہیں، اس لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ یہ پیسے عطیہ کردیں، یا پھر اپنے آس پاس کسی غریب کو دے دیں، تو مفتی صاحب آپ بتائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

جواب: پوچھی گئی صورت میں جب اس شخص نے آپریشن پر رضامندی ظاہر کردی تھی، تو شرعی طور پر ہسپتال والوں کو پوری رقم ادا کرنا اس کے ذمہ لازم تھا، تاہم اگر وہ شخص مستحق زکوۃ تھا اور ہسپتال والوں نے اضافی رقم زکوۃ کی مد میں ڈسکاؤنٹ کردی (یعنی اس سے توکیل کراکے زکوۃ کی اتنی رقم ہسپتال کے اکاؤنٹ میں چلی گئی) تو ایسا کرنا شرعا درست ہے، اس شخص کیلئے ڈسکاؤنٹ لینا جائز ہے، اور ایسی صورت میں زکوۃ کی مد میں ڈسکاؤنٹ کی گئی رقم ہسپتال کو ادا کرنا ضروری نہیں ہے، تاہم اگر وہ اپنی رضامندی سے وہ رقم ہسپتال کو دینا چاہتا ہے، تو صدقہ یا عطیہ وغیرہ کسی بھی عنوان سے ہسپتال کو دے سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (المائدۃ، الایة: 1)
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ....الخ

الدر المختار مع ردالمحتار: (344/2، ط: دار الفکر)
ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه).
(قوله: نحو مسجد) كبناء القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه زيلعي

الفتاوی التاتارخانیة: (272/2)
ولا تصرف فی بناء مسجد وقنطرۃ وفی شرح الطحاوی ورباط وفی شرح المتفق ولا یبنی بھا قبر ولا یقضی بھا دین میت ولا یعتق عبد ولا یکفن میتاً، والحیلۃ لمن اراد ذلک ان یتصدق ینوی الزکاۃ علی فقیر ثم یامرہ بعد ذلک بالصرف الی ھذہ الوجوہ فیکون لصاحب المال ثواب الصدقۃ ولذلک الفقیر ثواب ھذا الصرف

الدر المختار مع ردالمحتار: (269/2، ط: دار الفکر)
ولو خلط زکاۃ موکلیہ ضمن وکان متبرعا الا اذا وکلہ الفقراء
(قولہ ضمن وکان متبرعا) لانہ ملکہ بالخلط وصارمؤدیا مال نفسہ قال فی التتارخانیۃ: الا اذا وجد الاذن او اجاز المالکان ای اجاز قبل الدفع الی الفقیر…(قولہ اذا وکلہ الفقراء) لانہ کلما قبض شیأ ملکوہ وصارخالطا مالھم بعضہ ببعض ووقع زکاۃ عن الدافع بالاتفاق

و فیه ایضا: (باب المصرف، 68/2)
ولو قضیٰ دین الفقیر بزکوٰۃ مالہ ان کان بامرہ یجوز وان کان بغیر امرہ لا یجوز وسقط الدین

واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 594 May 10, 2022
haspatal / hospital ki taraf se / say zakat ki mad me / may / main discount ki hoi raqam ka hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.