سوال:
السلام علیکم، ایک یتیم لڑکی کیلئے خاندان کے لوگوں نے مل کر کچھ رقم جمع کی ہے، تقریبا ایک لاکھ سے زیادہ جمع ہو گئے ہیں، اور وہ بطور امانت کے ایک شخص کے پاس رکھ دیئے ہیں کہ اس کی شادی کے موقع پر کام آئیں گے، لڑکی کی عمر اس وقت گیارہ سال ہے، اور اپنے حقیقی چچا کے پاس رہ رہی ہے، وہ جمع شدہ رقم دوسرے شخص کے پاس ہے، کیا اب لڑکی کو زکوٰۃ و صدقات دیئے جا سکتے ہیں یا نہیں؟ مہربانی فرما کر راہنمائی فرما دیجئے۔
جواب: یتیم بچی کی شادی کے لیے جمع شدہ رقم جب تک اس کو یا اس کے وکیل کو مالک بنا کر نہ دی جائے، اس وقت تک وہ اس کی مالکہ نہیں کہلائے گی۔
لہذا سوال میں مذکور یتیم بچی اگر مستحق زکوٰۃ ہو اور سیدہ نہ ہو، نیز یہ مال جس شخص کے پاس بطورِ امانت رکھا ہوا ہے، وہ لڑکی کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے کا وکیل نہ ہو، تو ایسی صورت میں اسے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے، کیونکہ اس کی شادی کے لیے جمع شدہ رقم اب تک اس کی یا اس کے وکیل کی ملکیت اور قبضہ میں نہیں آئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (349/2)
"(و) لا إلى (طفله) بخلاف ولده الكبير وأبيه وامرأته الفقراء وطفل الغنية فيجوز؛ لانتفاء المانع.
(قوله: وطفل الغنية) أي ولو لم يكن له أب، بحر عن القنية (قوله: لانتفاء المانع) علة للجميع، والمانع أن الطفل يعد غنيًا بغنى أبيه بخلاف الكبير؛ فإنه لايعد غنيًا بغنى أبيه ولا الأب بغنى ابنه ولا الزوجة بغنى زوجها ولا الطفل بغنى أمه، ح في البحر".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالإفتاء الاخلاص،کراچی