سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! اگر کسی نے سال کی زکوٰۃ نہیں دی یا کبھی ادا ہی نہیں کی، اور اس کا انتقال ہوگیا، اب پیچھے رہنے والوں نے ان کا مال بیچ کر ان کی زکوٰۃ ادا کردی، حالانکہ مرحومہ نے وصیت نہیں کی تھی، تو کیا ایسی صورت میں مرحومہ کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی؟ رہنمائی فرمادیں۔
جواب: مرحومہ کے وصیت نہ کرنے کی وجہ سے اگرچہ ورثاء کے ذمہ ان کی زکوۃ ادا کرنا ضروری نہیں ہے، تاہم اگر سارے عاقل بالغ ورثاء کی رضامندی سے وراثت کے مال سے زکوۃ ادا کی گئی ہے تو ایسا کرنا درست ہے، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما کر مرحومہ کو آخرت کی باز پرسی سے محفوظ فرمائیں گے۔
لیکن اگر ورثاء میں کوئی نابالغ ہے، تو اس کی رضامندی معتبر نہیں ہے، لہٰذا اس كے حصے سے مرحومہ کی زکوۃ کی ادائیگی درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (74/2، ط: دار الفكر)
وظاهر كلامهم أنه لو كان عليه زكاة لا تسقط عنه بدون وصية لتعليلهم، لعدم وجوبها بدون وصية باشتراط النية فيها لأنها عبادة فلا بد فيها من الفعل حقيقة أو حكما، بأن يوصي بإخراجها فلا يقوم الوارث مقامه في ذلك. ثم رأيت في صوم السراج التصريح بجواز تبرع الوارث بإخراجها.
فتاوی رحیمیة: (10/243، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی