عنوان: مخلوط تعلیمی نظام (Co-education system) میں مرد کے پڑھانے اور اس کی کمائی کا حکم (9501-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! اگر کسی کا شوہر بیوی کے منع کرنے کے باوجود مخلوط یونیورسٹی میں تعلیم دیتا ہو، تو کیا شوہر کی آمدنی بیوی کے لیے استعمال کرنا جائز ہے؟ رہنمائی فرمادیں۔

جواب: واضح رہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کا مخلوط تعلیمی نظام ناجائز ہے، یہ ادراے کی ذمہ داری ہے کہ لڑکیوں کے لیے الگ باپردہ تعلیمی نظام کا انتظام کرے۔
مرد استاد کا مخلوط تعلیمی نظام میں پڑھانا فتنہ سے خالی نہیں ہے، خصوصاً جبکہ وہاں پڑھانے میں فتنہ میں مبتلا ہونے کا بھی اندیشہ ہو۔
البتہ مجبوری کی حالت میں پڑھانے والے استاد کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
1) حتی الامکان نظروں کی حفاظت کرنا۔
2) لڑکیوں کو پردہ کرنے کی ترغیب دیتے رہنا۔
3) اپنی قدرت واستطاعت کے بقدر لڑکیوں کے الگ تعلیمی نظام کے لیے آواز بلند کرنا۔
4) نیک صحبت میں رہنے کا اہتمام کرنا۔
واضح رہے کہ استاد کو چونکہ پڑھانے کا معاوضہ ملتا ہے، لہذا اگر استاد پوری دیانتداری سے اپنی ڈیوٹی ادا کرتا ہے، تو اس کی کمائی حلال ہے، محض مخلوط تعلیمی نظام میں پڑھانے سے اس کی کمائی کو حرام نہیں کہا جاسکتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم : (النور، الآیة : 30)
قُل لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ إِنَّ اللهَ خَبِيْرٌ بِمَا يَصْنَعُوْنَo

المبسوط للسرخسي: (باب إجارة الرقيق، 52/16، ط: دار المعرفة)
ويكره له أن يستاجر امرأة حرة أو أمة يستخدمها ويخلو بها لقوله صلي الله عليه وسلم: "لا يخلون رجل بامرأة ليس منها بسبيل فإن ثالثهما الشيطان"، ولانه لا يأمن الفتنة علي نفسه أو عليها إذا خلا بها، ولكن هذا النهي لمعني في غير العقد فلا يمنع صحة الإجارة ووجوب الأجر إذا عمل كالنهي عن البيع وقت النداء.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1706 May 24, 2022
makhloot talimi nizam (Co-education system) me / mein mard / admi ka parhane or us ki kamai ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.