عنوان: مسجد میں آکر پہلی صف میں اپنا مصلی بچانے والے کی جگہ پر دوسرے شخص کے کھڑے ہونے اور مسجد میں اپنے لیے جگہ مختص کرنے کا حکم(9536-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! کیا مسجد میں جگہ مختص کرنے کی اجازت ہے؟ جیسے کہ کچھ لوگ فجر کی نماز سے ایک گھنٹہ پہلے آجاتے ہیں، لیکن زیادہ تر وقت وہاں نہیں رہ بیٹھتے، وہ دوسری جگہوں پر کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں، اور قرآن مجید پڑھتے ہیں، تاہم نماز باجماعت کے لیے جگہ محفوظ رکھتے ہیں، اگر کوئی دوسرا شخص جگہ خالی پاکر وہاں نماز پڑھ لے، تو اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟

جواب: واضح رہے کہ اگر کوئی شخص مسجد میں پہلے آکر  کسی جگہ بیٹھے بغیر اپنا رومال یا مصلی وغیرہ اپنے لیے جگہ متعین کرنے کی نیت سے رکھ کر کسی اور غرض (مثلاً: وضو کرنے، تھوکنے وغیرہ) کے لیے چلا جائے، تو شرعاً اس کا یہ عمل ناجائز ہے، اس طرح کرنے سے وہ شخص اس جگہ کا حق دار نہیں رہے گا۔
البتہ اگر وہ شخص پہلے سے کسی جگہ مسجد میں آکر بیٹھا ہوا ہو اور پھر کسی غرض (وضو کرنے، تھوکنے وغیرہ) سے دوسری جگہ چلا جاتا ہے، تو اس صورت میں وہ شخص اس جگہ کا حق دار ہوگا، لہذا کسی اور شخص کے لیے جان بوجھ کر اس جگہ بیٹھنا نامناسب عمل ہے۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر کوئی شخص نماز سے ایک گھنٹہ پہلے مسجد میں آکر کسی غیر مخصوص جگہ پر بیٹھ جاتا ہے اور پھر تھکاوٹ کی وجہ سے کسی اور جگہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے چلا جاتا ہے اور اپنی جگہ متعین کرنے کی غرض سے مصلی بچا دیتا ہے اور پھر جماعت کے وقت اپنی متعین جگہ پر آکر نماز پڑھتا ہے، تو اس کا یہ عمل درست ہے، بشرطیکہ اس شخص کی مسجد میں مخصوص جگہ پر نماز پڑھنے کی مستقل عادت نہ ہو، کیونکہ مسجد میں کسی ایک جگہ مستقل نماز پڑھنے کی عادت بنالینا اور اس جگہ کسی اور شخص کو نماز پڑھنے کا موقع نہ دینا، جائز نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الفتاوي التاتارخانية: (ما يكره للمصلي و ما لا يكره، 570/1، ط: إدارة القرآن و العلوم الاسلامية)
وفي السغناقي: ويكره للانسان أن يخص لنفسه مكانًا في المسجد يصلي فيه.

الدر المختار مع رد المحتار: (659/1- 662، ط: دار الفكر)
ويحرم فيه السؤال، ويكره الإعطاء مطلقا... وتخصيص مكان لنفسه، وليس له إزعاج غيره منه ولو مدرسا.
(قوله: وتخصيص مكان لنفسه): لأنه يخل بالخشوع، كذا في القنية: أي لأنه إذا اعتاده ثم صلي في غيره يبقي باله مشغولا بالأول بخلاف ما إذا لم يألف مكانا معينا.
(قوله: وليس له إلخ) قال في القنية: له في المسجد موضع معين يواظب عليه وقد شغله غيره. قال الأوزاعي: له أن يزعجه، وليس له ذلك عندنا اه. أي لأن المسجد ليس ملكا لاحد، بحر عن النهاية.
قلت: ينبغي تقييده بما اذا لم يقم عنه على نية العود بلا مهلة، كما لو قام للوضوء مثلا ولا سيما إذا وضع فيه ثوبه لتحقق سبق يده.
وفي شرح السير الكبير للسرخسي: وكذا كل ما يكون المسلمون فيه سواء كالنزول في الرباطات والجلوس في المساجد للصلاة والنزول بمني أو عرفات للحج.... فهو أحق، وليس للآخر أن يحوله.

حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح: (ص: 615، ط: دار الكتب العلمية)
وهذا كمن بسط بساطا أو مصلي أي سجادة في المسجد أو المجلس فإن كان واسعا لا يصلي ولا يجلس عليه غيره وإن كان المكان ضيقا جاز لغيره أن يرفع البساط ويصلي في ذلك المكان أو يجلس.

نجم الفتاوی: (باب أحکام المساجد، 665/2)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 898 Jun 02, 2022
masjid me / mein / may akar pehli saf me / mein / may apna musala bichane wale ki jaga per / par dosrey / dosray shakhs k khare hone or masjid me / mein / may apne liye jaga mukhtas karne ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Rights & Etiquette of Mosques

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.