سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ہمارے بھائی کا تقریبا 55 سال کی عمر میں اس رمضان المبارک میں چوبیسویں رمضان کو انتقال ہوگیا تھا، (اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے۔آمین) مرحوم کی کوئی بھی حقیقی اولاد نہیں ہے، مرحوم کی اہلیہ نے ایک بیٹا اپنے تایا زاد سے گود لیا ہوا ہے، اب سوگواروں میں مرحوم کی بیوہ، لے پالک بیٹا، 4 حقیقی بھائی، 3 بہنیں اور والد صاحب ہیں، جبکہ مرحوم کی والدہ کا پہلے ہی انتقال ہو چکا ہے،
اب میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ عین شرعی اصولوں کے مطابق مرحوم کا ترکہ کیسے تقسیم ہو گا؟ براہ مہربانی تفصیل کے ساتھ وضاحت فرما دیجیے۔
جواب: مرحوم کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے حق میں وصیت کی ہو، تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد تمام جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو چار (4) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو ایک (1) اور والد کو تین (3) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں، تو بیوہ کو %25 فیصد اور والد کو %75 فیصد حصہ ملے گا۔
واضح رہے کہ لے پالک ببٹا حقیقی بیٹے کے حکم میں نہیں ہوتا ہے، لہذا مرحوم کے ترکہ میں اس لے پالک کا کوئی حق و حصہ نہیں ہے، اسی طرح مرحوم کے والد کے ہوتے ہوئے بہن بھائیوں کو مرحوم کی میراث سے کچھ نہیں ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الأحزاب، الایة: 4- 5)
وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَo ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًاo
و قوله تعالی: (النساء، الایة: 12)
وَلَهُنَّ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ....الخ
التفسیر المظھری: (284/7)
فلا یثبت بالتبنی شئی من الاحکام البنوة من الارث وحرمة النکاح وغیر ذلک۔
السراجی: (ص: 14- 15، ط: مکتبة البشری)
اماالاب فلہ احوال ثلث الفرض المطلق وہو السدس وذلک مع الابن وابن الابن وان سفل والفرض والتعصیب معاً وذالک مع الابنۃ اوابنۃ الابن وان سفلت والتعصیب المحض وذلک عند عدم الولد وولدالابن وان سفل۔
و فیه ایضا: (ص: 36، مکتبة البشرى)
يرجحون بقرب الدرجة، أعني أولاهم بالميراث جزء الميت أي البنون ثم بنوهم وإن سفلوا، ثم أصله أي الأب ثم الجد أي أب الأب وإن علا، ثم جزء أبيه أي الإخوة۔۔۔الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی