سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میں ایک مسجد کے مؤذن ہوں، اور تنخواہ بھی مسجد سے لیتا ہوں، مسجد کی انتظامیہ کہتی ہے کہ ہماری ذاتی خدمت بھی اسی میں شامل ہے، میں انتظامیہ کی وجہ سے بہت پریشان ہیں، تنخواہ مسجد کے پیسوں سے ملتی ہے، لیکن کام یہ اپنا بھی کروانا چاہتے ہیں، آیا یہ جائز ہے یا ناجائز؟ براہ رہنمائی فرمادیں۔
جواب: مسجد کا مؤذن مسجد کا ملازم ہے، اس لیے شرعی طور پر انتظامی کمیٹی کے افراد کی ذاتی خدمت مؤذن کے ذمہ لازم نہیں ہے، لہٰذا کمیٹی کے افراد مؤذن کو اپنے ذاتی کاموں پر مجبور نہیں کرسکتے، یہ سراسر زیادتی اور ظلم ہے، جس سے احتراز لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (70/6، ط: سعید)
(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولايشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. واتفقوا أنه لايؤدي نفلاً، وعليه الفتوى".
الفوائد المعللة لأبي زرعة الدمشقي: (رقم الحدیث: 100)
عن يحيى بن سعيد عن عمرة قالت سئلت عائشة ما كان يصنع النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في بيته قالت: بشر من البشر يخدم نفسه ويحلب شاته ويرقع ثوبه ويخصف نعله.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی