عنوان: کسی اور کی پراپرٹی کو جھوٹے کاغذات کے ذریعے اپنے نام کروانے کا حکم (9561-No)

سوال: مفتی صاحب! ایک فرد کسی پراپرٹی کا بیس سال سے قانونی طور پر بغیر کسی نزاع کے تنہا مالک ہو، اور پھر اُس کی لاعلمی میں اچانک اُس کا بھائی، بہن، والد، والدہ میں سے کوئی جعلی پاور آف اٹارنی بنواکر اُس میں یہ جھوٹ لکھے کہ پراپرٹی کے مالک نے اُس کو یہ اختیار خود سونپ دیا ہے کہ وہ اِس کی ملکیت میں جو چاہے تصرف کرسکتا ہے، یہاں تک کہ کسی کو ہدیہ بھی کرسکتا ہے اور بیچ بھی سکتا ہے، ایسے دستاویز میں یہ شخص اصل مالک کے جعلی دستخط کسی سے کروائے، اپنے پاس موجود کوئی پرانی تصویر اور شناختی کارڈ کی کاپی بھی مالک کی لگادے اور ساتھ ہی ایک حلف نامہ بھی لکھ دے کہ اِس پراپرٹی اور اِس کے اصل مالک کے حوالے سے جو کچھ وہ بیان کر رہا ہے، وہ حقیقت پر مبنی ہے، اور اگر کوئی غلط بیانی ثابت ہوئی تو اُس کی ذمہ داری خود اُسی پر عائد ہوگی، اِس طرح کے جعلی دستاویزات بنانے کے بعد یہ شخص رجسٹرار کو رشوت دے کر اِس پراپرٹی کا کچھ حصہ یا چند منزلیں اپنے نام پر یا اپنی بیوی کے نام پر یا اپنے کسی اور عزیز کے نام پر کرادے، اس تمہید کے بعد دو سوالات پیش خدمت ہیں:
۱) مندرجہ بالا عمل کی دینی وشرعی حیثیت کیا ہے اور ایسے شخص کے اِس عمل کے بارے میں دینِ اسلام کیا حکم لگاتا ہے؟
۲) جعلی دستاویزات کی بنیاد پر جس پراپرٹی کو اپنے یا اپنے کسی عزیز کے نام پر کرایا گیا تھا، کیا شرعاً ایسا شخص یا اُس کی بیوی یا بیٹی واقعتًا اِس پراپرٹی کی نئی مالک تصور کی جا سکتی ہے یا پھر اِس عمل کی کوئی دینی حیثیت نہیں ہوگی، دین کے اعتبار سے حقیقی مالک ہی مالک قرار دیا جائے گا؟ براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔

جواب: (۱۔۲) اگر واقعتاً کوئی شخص جھوٹے کاغذات بنوا کر دوسروں کی جائیداد کو ناحق اپنے نام کرالے تو ایسا کرنا شرعا ناجائز ہے۔ چنانچہ قرآن شریف میں ہے: "اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقوں سے نہ کھاؤ، اور نہ ان کا مقدمہ حاکموں کے پاس اس غرض سے لےجاؤ کہ لوگوں کے مال کا کوئی حصہ جانتے بوجھتے ہڑپ کرنے کا گناہ کرو"۔(سورہ بقرہ، آیت نمبر: 188)
ایک حدیث شریف میں ہے:"حضور اکرمﷺ نے ایک فیصلہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں ایک بشر ہوں، میرے پاس لوگ باہمی جھگڑوں کے فیصلے لے کر آتے ہیں، اب ممکن ہے کہ فریقین میں سے کوئی زبان کا تیز ہو، جس کی وجہ سے میں اسے سچا سمجھ کر فیصلہ کرتے ہوئے کسی اور کا حق اسے دیدوں تو بھی وہ اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا ہے، چاہے تو رکھ لے، چاہے تو چھوڑدے"۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2326)
اس آیت مبارکہ اور حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ جھوٹ بول کر یا غلط بیانی کے ذریعے کسی کے مال و جائیداد کو ہتھیانا گناہ ہے، اور اگر کوئی ایسا کربھی لے، تب بھی وہ شرعی طور پر اس جائیداد کا مالک نہیں بنتا، اصل مالک وہی ہوگا، جس کی وہ جائیداد ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 188)
وَلَا تَأۡكُلُوٓاْ ‌أَمۡوَٰلَكُم بَيۡنَكُم بِٱلۡبَٰطِلِ وَتُدۡلُواْ بِهَآ إِلَى ٱلۡحُكَّامِ لِتَأۡكُلُواْ فَرِيقٗا مِّنۡ أَمۡوَٰلِ ٱلنَّاسِ بِٱلۡإِثۡمِ وَأَنتُمۡ تَعۡلَمُونَo

صحيح البخاري: (رقم الحديث: 2326، ط: دار ابن كثير)
عن ابن شهاب قال: أخبرني عروة بن الزبير: أن زينب بنت أم سلمة أخبرته: أن أمها أم سلمة رضي الله عنها، زوج النبي صلى الله عليه وسلم أخبرتها، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: أنه سمع خصومة بباب حجرته، فخرج إليهم، فقال: (إنما أنا بشر، وإنه يأتيني الخصم، فلعل بعضكم أن يكون أبلغ من بعض، فأحسب أنه صدق، فأقضي له بذلك، فمن قضيت له بحق مسلم، فإنما هي ‌قطعة من ‌النار، فليأخذها أو فليتركها).

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 694 Jun 07, 2022
kisi or ki property ko jhote / jhotey / fake kaghzat / document k / kay zarye apne naam karwane ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.