سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میں نے پہلے حج کیا ہوا ہے، اب دوبارہ جارہی ہوں، کیا اب کا حج میں اپنی مرحومہ والدہ کی طرف سے کرسکتی ہوں؟ کیا یہ حج بدل ہوسکتا ہے؟ اگر ہوسکتا ہے، تو اس حج میں کیا تبدیلی ہوگی، صرف نیت کرنا ہوگی؟ رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا
جواب: واضح رہے کہ میت کی طرف سے حج بدل کرنا اس وقت ضروری ہوتا ہے کہ جب میت پر اس کی زندگی میں حج فرض ہوا ہو، اور اس نے اپنے مال میں سے حج بدل کرنے کی وصیت بھی کی ہو، ایسی صورت میں ورثاء پر لازم ہے کہ وہ ایک تہائی ترکہ میں سے میت کی طرف سے حج بدل ادا کریں، لیکن اگر میت نے حج بدل کی وصیت نہیں کی، تو ایسی صورت میں ورثاء پر حج بدل کرنا لازم نہیں ہے، البتہ اگر میت کا کوئی وارث یا بہن اپنے خرچے پر اس میت کی طرف سے حج کرنا چاہتے ہوں، تو کرسکتے ہیں، اور اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اس سے میت کی طرف سے حج ادا ہوجائے گا، اور وہ مؤاخذہ سے بری ہوگا۔
تاہم اگر کوئی وارث مرحوم کی طرف سے حج کرنا چاہے، تو یہ نفلی حج بدل ہوگا اور امید کی جاتی ہے کہ اللہ تعالی اس میت کو اس کا ثواب عطا فرمائیں گے۔
لہذا آپ اپنی والدہ مرحومہ کی طرف سے حج ادا کر سکتی ہیں اور آپ حج کا احرام باندھتے ہوئے یہ نیت کریں گی "اے اللہ! یہ حج میں اپنی والدہ مرحومہ کی طرف سے ادا کر رہی ہوں"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (الباب الخامس عشر في الوصية بالحج، 258/1)
"من عليه الحج إذا مات قبل أدائه فإن مات عن غير وصية يأثم بلا خلاف وإن أحب الوارث أن يحج عنه حج وأرجو أن يجزئه ذلك إن شاء الله تعالى، كذا ذكر أبو حنيفة - رحمه الله تعالى".
الفقه الإسلامي و أدلته: (49/3- 55)
"اشترط الحنفیۃ عشرین شرطا للحج عن الغیر نذکرھا... ان یحج النائب عن الاصیل من وطنہ ان اتسع ثلث الترکۃ فی حالۃ الوصیۃ بالحج، وان لم یتسع یحج عنہ من حیث یبلغ".
الدر المختار مع رد المحتار: (مَطْلَبٌ فِي إهْدَاءِ ثَوَابِ الْأَعْمَالِ لِلْغَيْرِ، 595/2)
"الْأَصْلُ: أَنَّ كُلَّ مَنْ أَتَى بِعِبَادَةٍ مَا، لَهُ جَعْلُ ثَوَابِهَا لِغَيْرِهِ وَإِنْ نَوَاهَا عِنْد الْفِعْلِ لِنَفْسِهِ لِظَاهِرِ الْأَدِلَّةِ.
(قَوْلُهُ: بِعِبَادَةٍ مَا) أَيْ سَوَاءٌ كَانَتْ صَلَاةً أَوْ صَوْمًا أَوْ صَدَقَةً أَوْ قِرَاءَةً أَوْ ذِكْرًا أَوْ طَوَافًا أَوْ حَجًّا أَوْ عُمْرَةً... الخ".
فتاویٰ رحیمیة: (126/8، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی