سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! درج ذیل حدیث کی تصدیق فرمادیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”منافق کی نماز کہ وہ بیٹھا ہوا سورج کو دیکھتا رہتا ہے، جب سورج زرد ہوکر شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان (چھپنے کے قریب) ہوجاتا ہے، تو جلدی سے اٹھ کر چار ٹھونگیں مارلیتا ہے، اور اللہ کا ذکر بھی اس نماز میں قدرے کم ہی کرتا ہے“۔ (صحیح مسلم: 1412)
جواب: دریافت کردہ روایت کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے، روایت کے ناقلین معتبر ہونے کی وجہ سے روایت کو آگے بیان کرنا درست ہے، روایت کا ترجمہ درجِ ذیل ہے:
" حضرت علاء بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ وہ ظہر کی نماز سے فارغ ہوکر حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچےحضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا گھر مسجد کے قریب تھا۔ حضرت علاء بن عبد الرحمن کہتے ہیں : جب ہم لوگ ان کی خدمت میں پہنچے ، تو انہوں نے دریافت کیا: تم لوگوں نے عصر کی نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے کہا: ہم تو ابھی ظہر کی نماز پڑھ کر ہی آئے ہیں۔ سو انہوں نےفرمایا: تم عصر کی نماز پڑھ لو۔ جب ہم عصر کی نماز پڑھ چکے، تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہےکہ "یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کو دیکھتا رہتا ہے، پھر جب سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان میں ہو جاتا ہے(غروب کا وقت ہونے لگتا ہے)، تو اٹھ کر(اس نماز کی) چار ٹھونگیں مارتا ہے (جلدی جلدی چار رکعت پڑھتاہے )، اور اس (نماز) میں وہ اللہ تعالیٰ کا ذکربہت تھوڑا کرتا ہے"۔
سورج کا شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہونے کا مطلب:
شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان ہونے کامطلب یہ ہے کہ جب سورج شیطان کے سر کی دونوں جانبوں کے درمیان ہوتا ہے ، سو ایسے موقع پر شیطان سورج کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس حرکت سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جولوگ سورج کو پوجتے ہیں، ان کا سجدہ سورج کی بجائے اس کے لیے ہوجائے، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے وقت میں نماز (عصر) پڑھنے پر تنبیہ فرمائی ہے، اور اسے منافق کی نماز قرار دیا ہے، تاکہ عبادت کرنے میں سورج کے پجاریوں کے ساتھ مشابہت نہ ہوجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم،لمسلم بن الحجاج القشیري، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب استحباب التکبیر بالعصر، 434/1، رقم الحدیث:622،المحقق: محمد فؤاد عبد الباقي، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت :
عن العلاء بن عبد الرحمن، أنه دخل على أنس بن مالك في داره بالبصرة، حين انصرف من الظهر، وداره بجنب المسجد، فلما دخلنا عليه، قال: أصليتم العصر؟ فقلنا له: إنما انصرفنا الساعة من الظهر، قال: فصلوا العصر، فقمنا فصلينا، فلما انصرفنا، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "تلك صلاة المنافق، يجلس يرقب الشمس، حتى إذا كانت بين قرني الشيطان قام، فنقرها أربعا، لا يذكر الله فيها، إلا قليلا".
شرح النووي علی صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب استحباب التبکیر بالعصر، 124/5، الناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت:
قوله ﷺ : "بين قرني الشيطان" اختلفوا فيه، فقيل :هو على حقيقته، وظاهر لفظه۔ والمراد: أنه يحاذيها بقرنيه عند غروبها، وكذا عند طلوعها؛ لأن الكفار يسجدون لها حينئذ فيقارنها، ليكون الساجدون لها في صورة الساجدين له، ويخيل لنفسه ولأعوانه أنهم إنما يسجدون له۔ وقيل: هو على المجاز، والمراد بقرنه وقرنيه: علوه وارتفاعه وسلطانه وتسلطه وغلبته وأعوانه۔ قال الخطابي: هو تمثيل، ومعناه: أن تأخيرها بتزيين الشيطان، ومدافعته لهم عن تعجيلها، كمدافعة ذوات القرون لما تدفعه۔ والصحيح الأول۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی