سوال:
مفتی صاحب! ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایمانداری سے نہیں کماتے، ان کی بات چیت سے پتا چلتا ہے کہ وہ کسی چیز کی قیمت کم کر دیتے ہیں یا جھوٹ بول کر فروخت کرتے ہیں یا کچھ لوگوں کو دیکھ کر ہی شک ہوتا ہے کہ ان کی کمائی پتا نہیں کیسی ہوگی؟ ایک طرف اس قسم کے لوگ ہیں اور دوسری طرف ویسے بھی آج کل کے دور میں دل نہیں مانتا کہ کسی کی چیز استعمال کریں کہ کہیں اس میں سے کوئی حرام نہ ہو۔ ظاہر سی بات ہے کہ ہم ہر کسی کی کمائی کی تحقیق تو نہیں کر سکتے، بعض لوگ چہرے سے شریف نظر آتے ہیں، اس لیے ہمیں ایسے لوگوں (دونوں قسم کے طبقوں) سے تقوی کے لحاظ سے چیز لینے کا کیا حکم ہے؟
جواب: اگر کسی مسلمان کی آمدنی کے مشتبہ ہونے کی کوئی واضح دلیل یا وجہ معلوم نہ ہو، محض وہم یا وسوسہ ہو تو ایسی صورت میں تحقیق و جستجو کا تکلف کیے بغیر اس کا ہدیہ قبول کرنا درست ہے، بلا وجہ کسی مسلمان پر یا اس کے ذریعہ آمدن پر شبہ کرنا درست نہیں ہے۔ تاہم اگر یقینی طور پر معلوم ہو کہ دیا جانے والا ہدیہ حرام آمدن کا ہےتو ایسا ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الحجرات، الآية: 12)
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا... إلخ
سنن أبي داود: (رقم الحديث: 4917، ط: دار الرسالة العالمية)
عن أبي هريرة، أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم - قال: "إياكم والظن، فإن الظن أكذب الحديث، ولا تحسسوا، ولا تجسسوا".
صحیح البخاري: (رقم الحدیث: 2057، 54/3، ط: دار طوق النجاة)
باب من لم ير الوساوس ونحوها من الشبهات
عن عائشة رضي الله عنها: أن قوما قالوا: يا رسول الله إن قوما يأتوننا باللحم لا ندري أذكروا اسم الله عليه أم لا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سموا الله عليه وكلوه.
الفتاوى الهندية: (210/3، ط: دار الفكر)
رجل اشترى من التاجر شيئا هل يلزمه السؤال أنه حلال أم حرام قالوا ينظر إن كان في بلد وزمان كان الغالب فيه هو الحلال في أسواقهم ليس على المشتري أن يسأل أنه حلال أم حرام ويبنى الحكم على الظاهر، وإن كان الغالب هو الحرام أو كان البائع رجلا يبيع الحلال والحرام يحتاط ويسأل أنه حلال أم حرام.
فقه البيوع: ( 2/1052، مكتبة معارف القرآن)
المال المغصوب، وما في حكمه مثل ما قبضه الإنسان رشوة أو سرقة أو بعقد باطل شرعا، لا يحل له الانتفاع به، ولا بيعه وهبته، ولا يجوز لأحد يعلم ذلك أن يأخذه منه شراء أو هبة أو إرثا. ويجب عليه أن يرده إلى مالكه، فإن تعذر ذلك وجب عليه أن يتصدق به عنه. وإن كان المال نقدا، واشترى به شيئا بالرغم من عدم الجواز، فإن اشترى بعين المال الحرام، فلا يجوز الانتفاع بما الشتراة حتي يؤدي بدله إلى صاحبه...
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی