سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ایک آدمی نے ایک لاکھ روپے بطور قرض اس شرط پر دیئے کہ ابھی مجھے مثلا ایک لاکھ کے 10 ہزار اینٹیں لینی ہیں، آپ جب مجھے پیسے واپس کرو گے، تو 10 ہزار اینٹیں لیکر دینا، پھر چاہے اینٹیں کتنے کی بھی ملیں، قرض لینے والا اس شرط پر راضی ہوجاتا ہے کہ میں آپ کو 10 ہزار اینٹیں لیکر دونگا، کیا اسطرح معاملہ کرنا جائز ہے؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ قرض دار دس لاکھ روپے کا قرضہ لے رہا ہے، لہذا اس کے ذمہ دس لاکھ روپے ہی ادا کرنے ضروری ہیں، قرض خواہ کو دس لاکھ روپے کے علاوہ کسی اور چیز کے مطالبے کا حق نہیں ہے۔
البتہ اگر قرض خواہ بطور قرض دس لاکھ روپے دینے کے بجائے اس رقم سے دس ہزار اینٹیں خرید کر قرض دار کو دے دے اور بدلے میں اسی نوعیت کی دس ہزار اینٹیں دینا طے ہوجائے، تو اس طرح معاملہ کرنا درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (فصل في حكم القرض، 396/7، ط: دار الكتب العلمية)
وأما حكم القرض فهو ثبوت الملك للمستقرض في المقرض للحال، وثبوت مثله في ذمة المستقرض للمقرض للحال، وهذا جواب ظاهر الرواية.
الدر المختار: (162/5، ط: دار الفكر)
فيصح استقراض الدراهم والدنانير، وكذا كل ما يكال أو يوزن أو يعد متقارباً فصح استقراض جوز وبيض.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی