سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ہمارے گھر والے اچانک بیمار پڑنے لگے ہیں، گھر میں طلاقیں ہورہی ہیں، اگر کسی نے کوئی جادو وغیرہ کروایا ہو، تو اسے شرعی طور پر کیسے معلوم کرسکتے ہیں؟ براہ کرم ہماری رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ اگر کسی کو زندگی میں ایسے غیر معمولی حالات کا سامنا ہو، جن کے طبعی اثرات کا پتہ نہ چل رہا ہو اور اطباء بھی اس بیماری کے طبعی اسباب کی تشخیص نہ کر پا رہے ہوں، تو ایسی صورت میں بہتر یہ ہے کہ اپنی روز مرہ کی معاشی اور معاشرتی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہماری زندگی میں جو بے چینی ہے، اس کا سبب احکام شریعت کے خلاف ورزی ہو، یا خدانخوستہ آمدنی میں حرام اور مشتبہ مال کی آمیزش ہو، یا حقوق العباد میں کوتاہی برتی جا رہی ہو، یا کسی انسان کو نا حق ستا رہے ہوں، یا کسی پر ظلم کیا ہو اور اس کی وجہ سے ہماری زندگی سے سکون رخصت ہو گیا ہو وغیرہ، لہذا اگر مذکورہ بالا اسباب میں سے کوئی سبب ہو، تو اسے فورا دور کر لیا جائے، کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
"اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا، تو اس کو بڑی تنگ زندگی ملے گی، اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے"۔
(سورہ طٰہٰ: آیت نمبر 124)
اگر زندگی کا جائزہ لینے کے بعد اطمینان ہو جائے کہ الحمدللہ ہماری زندگی احکام شریعت کے مطابق گزر رہی ہے، یا غیر شرعی کاموں سے اجتناب کر لیا گیا ہے، لیکن پھر بھی جادو کے اثرات کا شبہ ہے، تو پھر سورۃ البقرۃ، معوذتین اور "منزل" پڑھنے کا معمول بنا لیں، کیونکہ سورۃ البقرۃ، معوذتین اور "منزل" کو پڑھنے سے سحر کے اثرات دور ہو جاتے ہیں۔
آخری درجہ میں اگر کوئی دیندار متبع سنت ماہر عامل دستیاب ہو جائے، تو اس سے علاج بھی کروا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (طه، الآية: 124)
وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا وَّنَحۡشُرُهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ اَعۡمٰىo
صحيح مسلم: (کتاب صلاۃ المسافر، باب فضل الفاتحة و خواتيم سورة البقرة، رقم الحديث: 806، 554/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، وَأَحْمَدُ بْنُ جَوَّاسٍ الْحَنْفِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ رُزَيْقٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بَيْنَمَا جِبْرِيلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعَ نَقِيضًا مِنْ فَوْقِهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: "هَذَا بَابٌ مِنَ السَّمَاءِ فُتِحَ الْيَوْمَ لَمْ يُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ، فَنَزَلَ مِنْهُ مَلَكٌ، فَقَالَ: هَذَا مَلَكٌ نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ لَمْ يَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ، فَسَلَّمَ، وَقَالَ: أَبْشِرْ بِنُورَيْنِ أُوتِيتَهُمَا لَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِيٌّ قَبْلَكَ: فَاتِحَةُ الْكِتَابِ، وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِنْهُمَا إِلَّا أُعْطِيتَهُ".
مسند أحمد: (رقم الحديث: 21345، 274/35، ط: مؤسسة الرسالة)
حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيٍّ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أُعْطِيتُ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ مِنْ بَيْتِ كَنْزٍ مِنْ تَحْتِ الْعَرْشِ، وَلَمْ يُعْطَهُنَّ نَبِيٌّ قَبْلِيط.
سنن الترمذي: (أبواب الطب، باب ما جاء في الرقية بالمعوذتين، رقم الحديث: 2058، 463/3، ط: دار الغرب الإسلامي)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُونُسَ الكُوفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا القَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْمُزَنِيُّ، عَنِ الجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ مِنَ الجَانِّ وَعَيْنِ الإِنْسَانِ حَتَّى نَزَلَتِ الْمُعَوِّذَتَانِ فَلَمَّا نَزَلَتَا أَخَذَ بِهِمَا وَتَرَكَ مَا سِوَاهُمَا.
سنن النسائي: (كتاب الاستعاذة، رقم الحديث: 5438، 253/8، ط: مكتب المطبوعات الإسلامية)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "يَا عُقْبَةُ، قُلْ" فَقُلْتُ: مَاذَا أَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَسَكَتَ عَنِّي، ثُمَّ قَالَ: "يَا عُقْبَةُ قُلْ" قُلْتُ: مَاذَا أَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَسَكَتَ عَنِّي، فَقُلْتُ: اللَّهُمَّ ارْدُدْهُ عَلَيَّ، فَقَالَ: "يَا عُقْبَةُ قُلْ" قُلْتُ: مَاذَا أَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: "قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ"، فَقَرَأْتُهَا حَتَّى أَتَيْتُ عَلَى آخِرِهَا، ثُمَّ قَالَ: "قُلْ" قُلْتُ: مَاذَا أَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: "قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ"، فَقَرَأْتُهَا حَتَّى أَتَيْتُ عَلَى آخِرِهَا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: "مَا سَأَلَ سَائِلٌ بِمِثْلِهِمَا، وَلَا اسْتَعَاذَ مُسْتَعِيذٌ بِمِثْلِهِمَا".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالإفتاء الاخلاص،کراچی