سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! کیا درج ذیل حدیث درست ہے؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہماری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر (سال) کے درمیان ہیں اور تھوڑے ہی لوگ ایسے ہوں گے، جو اس حد کو پار کریں گے۔ (ترمذی: 3550)
جواب: سوال میں مذکور حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ رحمہما اللہ نے اپنی "سنن" میں ذکر کیا ہے، امام ترمذی رحمہ اللّٰہ نے روایت کی سند کو "حسن غریب" قرار دیا ہے، لہذا اس حدیث کو آگے بیان کیا جاسکتا ہے۔
حدیث کا مفہوم:
حدیث کا ترجمہ تو سائل نے ذکر کردیا ہے، دوبارہ ذکر کرنے کی حاجت نہیں، تاہم حدیث کا مختصر مفہوم سمجھنا ضروری ہے، اس روایت میں غالب طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ امت محمدیہ کے افراد کی عمر ساٹھ سے ستر سال کے درمیان عرصہ تک ہوگی، چونکہ عام مشاہدہ بھی ہے کہ بعض لوگ ساٹھ سال کی عمر سے قبل ہی وصال پاجاتے ہیں، جبکہ بعض لوگ اسّی، نوے اور سو سال کی عمر کو بھی عبور کرجاتے ہیں، جیسا کہ بعض مشہور صحابہ حضرت انس اور سلمان فارسی وغیرہ حضرات رضی اللہ عنہم کے متعلق معروف ہے ۔ لہذا یہاں عمومی وغالب اعتبار سے ذکر کیا گیا ہے، صاحب "مفاتیح " علامہ مظہر الدین زیدانی(متوفی:727ھ) نے اس بات پر صراحت فرمائی ہے۔ چنانچہ ذکر کردہ عمر (ساٹھ اور ستر برس کی عمر) کے مابین خود جناب نبیﷺ اور ان کے اکابر خلفاء حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کا وصال ہوا۔
بہرصورت اس روایت کا مقصد غافل انسان کو متنبہ کرنا ہے کہ ساٹھ برس کی عمر عبور کرنے کے بعد بھی انسان آخرت کی یاد سے پہلو تہی اختیار کرے تو یہ کس قدر شرمناک ہے؟!۔ چنانچہ قرآن مجید میں بھی اللہ رب العزت نے انسان کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:"بھلا کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس کسی(شخص ) کو اس(عمر) میں سوچنا سمجھتا ہوتا ، وہ سمجھ لیتا؟ اور تمہارے پاس خبردار کرنے والا بھی آیا تھا(آسان ترجمہ قرآن)سورة فاطر آیت نمبر :37 ۔
مندرجہ بالا آیت کریمہ میں عمر کی تحدید صراحتاً نہیں فرمائی گئی ہے، تاہم اس عمر میں انسانی اعذار کی تکمیل اور عقل وفہم کی پختگی کی جانب اشارہ کیا ہے،سو مذکورہ عمر کی تحدید حضرت ابن عباس اور علی رضی اللہ عنہما نے ساٹھ برس کی عمر سے کی ہے، جس میں حدیث کے مطابق (غافل)انسان کے اعذار اپنی تکمیل کو پہنچ جاتے ہیں، سو ا س کے بعد دین ِ اسلام سے دوری کا عذر پیش کیا جانا قابل ِ سماعت نہیں رہتا۔
مختصر زندگی دیے جانے میں حکمت:
اس حوالہ سے علامہ مناوی نے حکیم ترمذی رحمہما اللہ کے حوالہ سے حکمت یوں ذکر فرمائی ہے "یہ بھی امت محمدیہ پر اللہ رب العزت کے من جملہ احسانات میں سے ایک احسان ہے کہ اس دنیا کی طبعی عمر پورا ہونے سے کچھ قبل پیدا فرمایا، تاکہ سابقہ امم کی مانند زندگی کے دورانیہ کی طوالت اور اپنی جسمانی مضبوطی کے غرور ودھوکہ میں خود کو دنیوی نظام پر قابض تصور کرنے اور زمین پر فساد مچانے سے خود کو باز رکھیں، جس کے نتیجہ میں عذابِ قبر کی شدت سے محفوظ رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی، أبواب الدعوات ، 5/ 553، رقم الحدیث: (3550)، ط: دار الغرب الإسلامي- بیروت:
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين، وأقلهم من يجوز ذلك.
سنن ابن ماجه، کتاب الزهد، باب الأمل والأجل، 311/5، رقم الحدیث:4235، المحقق: شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد - محمَّد كامل قره بللي - عَبد اللّطيف حرز الله، الناشر: دار الرسالة العالمية:
عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «أعمار أمتي ما بين الستين، إلى السبعين، وأقلهم من يجوز ذلك»
مسند ابی یعلی الموصلی، لأحمد بن علی الموصلي، مسند أنس بن مالک، قتادة عن أنس، 283/5، رقم الحدیث:2902، المحقق: حسين سليم أسد، الناشر: دار المأمون للتراث – دمشق:
عن أنس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «عمر أمتي ما بين الستين إلى السبعين، وأقلهم الذين يبلغون ثمانين»
تفسیر البغوی، لمحیی السنة أبو محمد الحسین البغوي، سورة فاطر،رقم الآیة: 38، 425/6، المحقق: حققه وخرج أحاديثه محمد عبد الله النمر - عثمان جمعة ضميرية - سليمان مسلم الحرش، الناشر: دار طيبة للنشر والتوزيع:
قوله تعالی:{أولم نعمركم ما يتذكر فيه من تذكر} قيل: هو البلوغ. وقال عطاء وقتادة والكلبي: ثمان عشرة سنة. وقال الحسن: أربعون سنة. وقال ابن عباس: ستون سنة، يروي ذلك عن علي-رضي الله عنهم-، وهو العمر الذي أعذر الله تعالى إلى ابن آدم.
المفاتیح شرح المصابیح، لمظهر الدین الزیداني، باب استحباب المال والعمر للطاعة، 303/5، تحقيق ودراسة: لجنة مختصة من المحققين بإشراف: نور الدين طالب، الناشر: دار النوادر:
قوله: "وأقلهم من يجوز ذلك"، يعني: أكثر أمتي يموتون، إذا كان أعمارهم سبعين سنة أو أقل، وقليل من يزيد عمره على سبعين سنة.
فتح الباری، لأحمد بن علی بن حجر العسقلاني، باب من بلغ ستین سنة، 240/11، دار المعرفة، بیروت:
"وفي الحديث إشارة إلى أن استكمال الستين مظنة لانقضاء الأجل۔ وأصرح من ذلك ما أخرجه الترمذي بسند حسن، إلى أبي سلمة بن عبد الرحمن عن أبي هريرة رفعه: "أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين، وأقلهم من يجوز ذلك"۔ قال بعض الحكماء: "الأسنان أربعة: سن الطفولية، ثم الشباب، ثم الكهولة، ثم الشيخوخة، وهي آخر الأسنان، وغالب ما يكون ما بين الستين والسبعين، فحينئذ يظهر ضعف القوة بالنقص والانحطاط۔ فينبغي له الإقبال على الآخرة بالكلية، لاستحالة أن يرجع إلى الحالة الأولى، من النشاط والقوة۔ وقد استنبط منه بعض الشافعية أن من استكمل ستين فلم يحج مع القدرة فإنه يكون مقصرا، ويأثم إن مات قبل أن يحج بخلاف ما دون ذلك "۔
شرح الطیبي علی مشکاة المصابیح، لشرف الدین الطیبي، 3325/10، المحقق: د. عبد الحميد هنداوي، الناشر: مكتبة نزار مصطفى الباز:
"هذا محمول على الغالب بدليل شهادة الحال، فإن منهم من لم يبلغ ستين، ومنهم من يجوز سبعين"۔
فیض القدیر، لتاج الدین المدعو ب"عبدالرؤوف المناوي، حرف الهمزة، 71/2، الناشر: المكتبة التجارية الكبرى – مصر:
قال الحكيم: هذا من جملة رحمة الله على هذه الأمة وعطفه عليهم: أخرهم في الأصلاب، حتى أخرجهم إلى الأرحام بعد نفاذ الدنيا، ثم قصر أعمارهم لئلا يلتبسوا بالدنيا إلا قليلا ولا يتندسوا؛ فإن القرون الماضية كانت أعمارهم وأجسادهم على الضعف منا، كان أحدهم يعمر ألف سنة، وجسمه ثمانون باعا، فيتناولون الدنيا بمثل هذه الصفة على مثل تلك الأجساد۔ وفي مثل تلك الأعمار فأشروا وبطروا واستكبروا، فصب الله عليهم سوط عذاب، (کما قال){إن ربك لبالمرصاد}"۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی