سوال:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، مفتی صاحب ! (1) کیتھیٹر Catheter یعنی پیشاب کی نالی لگانے کی مختلف اقسام استعمال ہوتی ہیں، پوچھنا یہ ہے کہ کیا ان سب اقسام کا حکم ایک ہی یا مختلف ہے؟ اگر مختلف ہے تو یہ رہنمائی کردیجئے کہ کس قسم کے Catheter لگانے کی صورت میں مریض شرعاً معذور کہلائے گا، اور کس صورت میں معذور نہیں کہلائے گا؟
(2) دوسرا مسئلہ یہ ہےکہ کیا Catheter لگانے کے بعد مریض مسجد میں نماز پڑھنے جاسکتا ہے یا نہیں؟
ازراہ کرم دونوں مسئلوں کا تفصیل سے جواب عنایت فرماکر ممنو ن فرمائیں۔
جواب: کیتھیٹر (Catheter) کی اقسام اورتفصیل:
Catheter سے متعلق معلومات کے لیےہم نے ڈاکٹر حضرات سے رجوع کیا،جس کے نتیجے میں ہمیں درج ذیل معلومات حاصل ہوئیں :
کیتھیٹر (Catheter)کے دو حصے ہوتے ہیں، ایک حصہ مرد یا عورت کی پیشاب کی جگہ (پیشاب کی نالی) کےاندر لگایا جاتا ہے، یہ کیتھیٹر کہلاتا ہے، اور دوسرا حصہ بیگ کی صورت میں ہوتا ہے، جو اسی کیتھیٹر کے ساتھ لگایا جاتا ہے، اسے Urine bagکہا جاتاہے۔
کیتھیٹر(Catheter) لگانے کی وجوہات:
مختلف وجوہات کی بنا پر مریض کوCatheter لگایا جاتا ہے:
1:اگرکسی شخص کو کوئی ایسا مرض لاحق ہوگیا ہو،جس کی وجہ سے پیشاب مثانے سے باہر نہیں آرہاہو،یعنی مثانے تک تو پیشاب آرہا ہے، مگر مثانے سے پیشاب کی نالی تک کوئی رکاوٹ آنے کی وجہ سے مثانے سے باہر نہیں آرہا ہوتا،جیسے مثلاً : پتھری پیدا ہوگئی ہے،یا رسولی بن گئی ہے ، یا غدود بہت زیادہ بڑھ گئےہیں ،اور انہوں نے رکاوٹ ڈال دی ہے، تو اس صورت میں پیشاب کی نالی لگاکر اس کے ذریعے پیشاب باہر نکالا جاتا ہے۔
2: بعض اوقات کسی آپریشن کی وجہ سےمریض بار بار اپنی جگہ سے اٹھ کر باتھ روم نہیں جاسکتا ، تکلیف ہوتی ہےیا نقصان کا خطرہ ہوتا ہے،تو جب تک وہ مریض مستقل بیڈ پر ہے،اس کو پیشاب کی نالی لگائی جاتی ہے۔
3: کچھ مریض بے ہوشی کی حالت میں ہوتے ہیں، یا قومے میں چلے جاتے ہیں تو چونکہ ایسے مریض بھی بیڈ سے نہیں اٹھ سکتے اس لیےایسے مریضوں کو بھی پیشاب کی نالی لگائی جاتی ہے۔
Catheter کے اقسام
Catheterتین اقسام کے ہوتے ہیں:
1)Foleys catheter (نالی والا کیتھیٹر) 2) 3A catheter (3 Condom Catheter
(1). Foleys catheter (نالی والا کیتھیٹر)
یہ کیتھیٹر پانی کے پائپ کی طرح بالکل باریک نالی کی صورت میں ہوتا ہے ،جو پیشاب کی جگہ میں اندر داخل کرکے مثانے تک پہنچایا جاتا ہے۔
(2). 3A catheter
کیتھیٹر (Catheter) کی اس قسم میں بھی ایک باریک نالی مرد و عورت کی پیشاب کی جگہ میں داخل کر کے مثانے تک پہنچائی جاتی ہے، البتہ Catheter کی اس دوسری قسم میں جو نالی باہر لگی ہوتی ہے ،اس حصے میں تین راستے بنے ہوئے ہوتے ہیں :
• ایک راستے سے پانی اندر ڈال کر،اندر والے حصے میں غبارے کو پھلایاجاتا ہے۔(اس کی تفصیل آگے آرہی ہے)
• دوسرے راستے سے مثانے سے پیشاب باہر آتا ہے۔
• تیسرا راستہ مثانے کی صفائی کے لیے ہوتاہے کہ کبھی مثانے کی صفائی کرنے کی ضرورت ہو،تو اس نالی کے ذریعے پانی اندر داخل کیا جاتا ہے،پھر مثانہ صاف ہوکر،وہ پانی پیشاب کی شکل میں باہر بیگ میں آکر جمع ہوجاتا ہے۔
Foleys catheter (نالی والا کیتھیٹر) اور3A catheter سے متعلق تفصیل :
نالی والا کیتھیٹر(Catheter)مرد یا عورت کی پیشاب کی نالی میں داخل کر کے مثانے تک پہنچانے کے بعد نالی کے باہر والے حصہ سے پانی ڈال کر Pushکیا جاتا ہے ، جس سے نالی کا اندر والا حصہ جو مثانے میں جاچکا ہے ،وہ غبارے کی طرح پھول جاتا ہے ، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اندر غبارہ پھول جانے سے نالی اندر ہی موجود رہے، خود بخود باہر نہ آسکے ۔
پھر مثانے میں جو پیشاب جمع ہوتا رہتا ہے ،وہ نالی کے ذریعے باہر بیگ میں جمع ہوجاتا ہے،اس بیگ کے نیچے ایک ڈرین سسٹم (Drain System)بنا ہوتا ہے،جسے کھول کر جمع شدہ پیشاب نکالا جاسکتا ہے، نیز وہ یورین بیگ نالی سے علیحدہ بھی کیا جاسکتا ہے،لیکن اس کو اندر سے دھویا نہیں جاسکتا ۔
مذکورہ دونوں Catheters لگانے کے بعد مریض پیشاب روکنے پر قادر نہیں ہوتا :جب Catheter اور نالی مریض کو لگائی جاتی ہے(چاہے مرد کو لگائی جائے یا عورت کو)تو نالی اور مثانہ آپس میں جڑ جاتے ہیں ، کیونکہ کیتیھٹر کا جو پائب لگایا جاتا ہے، اس کا سرا مثانے کے بالکل نچلے حصے میں ہوتا ہے، اس لیے جیسے ہی پیشاب مثانے میں آتا ہے،اس نالی کے ذریعے خود بخود بیگ میں جمع ہوجاتا ہے، لہٰذامریض اپنا پیشاب پرقادر نہیں ہوتا ، بلکہ جیسے جیسے پیشاب مثانے میں جمع ہوتا رہے گا، فوراًہی خود بخود نالی کے ذریعے بیگ میں جمع ہوجائےگا،چنانچہ کیتھیٹرلگنے کے بعد مریض اگر نماز پڑھنا چاہے، تو نماز کے دوران بھی اس کا پیشاب آتا رہتا ہے ، بند نہیں ہوتا۔
Foleys catheter (نالی والا کیتھیٹر) اور3A catheter میں پیشاب بند کرنے کا طریقہ:مریض کو پیشاب کی نالی لگانے کے بعد یہ صورت نہیں ہوسکتی کہ اس کو اس طرح بند کیا جائے کہ پیشاب مثانے سے نکل کر باہرنالی میں نہ آسکے،البتہ باہر سے نالی بند کی جاسکتی ہے جس سے بیگ میں پیشاب داخل نہیں ہوتا،اس کا ایک طریقہ تو یہ ہوتا ہے کہ اس بیگ کو ہی اتار کر اس کی جگہ کوئی کلپ (Clip) لگادی جاتی ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ بیگ کو نہیں اتارا جاتا ،بلکہ بیگ کے پائپ کو موڑ کر اس پر کلپ لگا کر بند کردیا جاتا ہے ،اس سے بھی پھر پیشاب بیگ میں جمع نہیں ہوتا ،البتہ اس کے باوجود پیشاب کیتھیٹر کی نالی میں موجود رہتا ہے ۔
پائپ کو کلپ لگا کر بند کرنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جس مریض کو مسلسل چند دن کیتھٹر لگاہوا ہو ،تو اس کے Musclesنرم پڑجاتے ہیں ،ان کے اندر پاور موجود نہیں ہوتی ،چنانچہ اگر فوراًہی مکمل کیتھیٹر اتار دیا جائے، تو Muscles نرم ہونےکی وجہ سے بےاختیار پیشاب باہر آتا رہے گا،اس لیے پہلے دو تین دن تک وقفے وقفے سے، اس پائپ کو کلپ لگا کر بند کردیا جاتا ہے،تاکہ Musclesدوبارہ آہستہ آہستہ اپنا کام شروع کردیں او ر پیشاب آنے کی صورت میں مریض کو محسوس ہو اورپھر وہ اپنے اختیار سے پیشاب باہر نکالے۔
3. Condom Catheter (یعنی غبارےوالا کیتھیٹر)
تیسرا کیتھیٹر (Catheter) غبارہ کی طرح ہوتا ہے، جو کنڈوم (Condom)کی طرح مرد کے عضو تناسل پر چڑھا دیا جاتا ہے، اور اس کے آگے چھوٹی سی نالی ہوتی ہے، جس میں سوراخ کر کے بیگ لگادیا جاتا ہے۔
ان میں سے پہلی دونوں قسمیں مردو عورت دونوں کو لگائی جاسکتی ہیں ،جبکہ Catheterکی تیسری غبارے والی قسم عورت کو نہیں لگ سکتی ،وہ صرف مرد کولگائی جاتی ہے۔
Condom Catheter میں پیشاب نکلنے سے متعلق تفصیل :
Condom Catheterکیتھیٹر لگانے کے بعد مریض دوسرے کسی شخص کی مدد کے بغیر بھی اسے خود بآسانی اتار بھی سکتا ہے،اور دوبارہ چڑھا بھی سکتا ہے، نیز چونکہ یہ کنڈوم کی طرح عضو تناسل کے اوپر ہی چڑھا یا جاتاہے،اس لیے اگر مریض اپنے ہوش و ہواس میں ہو تو اس کو پیشاب روکنے کی قدرت ہوتی ہے،اس کے اختیار کے بغیر پیشاب نہیں نکلتا، البتہ اگر اپنےہوش وحواس میں نہ ہو تو غیر اختیار ی طور پر پیشاب خود بخود نکل جاتا ہےاور غبارے کے آگے نالی کے ذریعہ بیگ میں جمع ہوجاتا ہے۔
کیتھیٹر (Catheter) کی اقسام کا شرعی حکم :
Foleys catheter (نالی والا کیتھیٹر) اور3A catheter کا شرعی حکم :
﴿1﴾....مذکورہ معلومات کے مطابق چونکہ نالی والا کیتھیٹر(Catheter) لگانے سے مریض کو پیشاب روکنے کی قدرت نہیں رہتی ،بلکہ مریض کے اختیار کے بغیر ہی پیشاب خود بخود مثانے سے نکل کر نالی کے ذریعے بیگ میں جمع ہوتا رہتا ہے،اور مریض کو پیشاب نکلنے کا احساس نہیں ہورہا ہوتا،اس لیے ایسی صورت میں نالی والا کیتھیٹر(Catheter) لگانے کے بعد وہ شخص شرعاً معذور کے حکم میں ہوگا ۔
جس کا حکم یہ ہے کہ ایسا شخص ہر فرض نماز کے وقت میں نیاوضوء کرلے، پھر اس وضوء سے اس وقت کے اندر فرض نما ز کے ساتھ سنتیں اورنوافل بھی ادا کرسکتا ہے ،(اگر چہ اس دوران پیشاب نکلتا رہے) پیشاب نکلنے سے اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا،اس صورت میں وضو کے ٹوٹنے کی صرف دو وجوہات ہوسکتی ہیں:
• پیشاب کے علاوہ کوئی اور ناقضِ وضو یعنی وضو توڑنے والی چیز پائی جائے، جیسےمثلاً ریح کا خارج ہونا،یا خون کا نکلنا وغیرہ ۔
• جس فرض نماز کے وقت میں وضو کیا ہے،جب اس فرض نماز کا وقت ختم ہوجائے گا،تو اس کا یہ وضوء خود بخود ختم ہوجائے گا اور اگلی فرض نماز کے لیے نیا وضوء کرنا ہوگا۔
نوٹ:نیز نماز کے دوران اس بیگ کو اپنے جسم سے الگ کر کے زمین پر رکھ کر نماز پڑھی جائے، کیونکہ عذر کی وجہ سے اگرچہ نجاست کے ہوتے ہوئے نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے،لیکن یہ بھی ضروری ہےکہ جس قدر ممکن ہو نجاست کو کم سے کم کیا جائے،البتہ اگر تھیلی الگ کرنا مشکل ہو تو پھر تھیلی کے ساتھ بھی نماز پڑھ سکتے ہیں ۔
condom catheter کا شرعی حکم:
مذکورہ بالامعلومات کے مطابق چونکہ condom catheter کی صورت میں اگر مریض بیہوش نہ ہو تو اسے پیشاب روکنے پر مکمل قدرت حاصل رہتی ہے، اس لیے مریض condom catheter کی وجہ سے شرعاً معذور کے حکم میں شمار نہ ہوگا ، لہٰذا عام شخص کی طرح پیشاب کے قطرے نکلنے سے اس کا وضو ٹوٹ جائےگا، اور پھر نماز پڑھنے سے پہلے اسے دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔
نیز واضح رہے کہ condom catheterکو کسی دوسرے کی مدد کے بغیر مریض خود بآسانی اتار سکتا ہے، اور پھر دوبارہ لگا سکتا ہے،اس لیے اس کے لیے اصل حکم یہ ہے کہ نماز کے لیےاس catheterکو اتارکراستنجاء کرے، اور پھر باقاعدہ وضو کرکے نماز ادا کرے۔
تاہم اگر مرض اس نوعیت کا ہو کہ مریض کے لیے دوسرے سے مدد لیے بغیر خود اپنے ہاتھوں سے اتارنا یا چڑھانا مشکل ہو،اور کوئی ایسا فرد بھی موجود نہیں ہے جس کے لیے اس کا ستر دیکھنا جائز ہو ،جیسے اس کی بیوی توایسی صورت میں کنڈوم کیتھیٹر کے ہوتے ہوئے بھی مریض نماز ادا کرسکتا ہے، البتہ اس دوران پیشاب کے قطرے نکلنے سے وضو ٹ جائے گا،( بشرطیکہ وہ پیشاب کی تکلیف کی وجہ سے شرعی معذور نہ ہو۔)
﴿2﴾....حدیث شریف میں ایسے شخص کو مسجد آنے سے منع کیا گیا ہے جس نےکچی پیاز یا لہسن کھائی ہو، اور منہ سے بدبوآتی ہو، کیونکہ اس سے لوگوں کو اور مسجد میں موجود فرشتوں کو تکلیف پہنچتی ہے، پھر اسی پر قیاس کرتے ہوئے فقہاء کرامؒ نے لکھاہے کہ اس میں ہر تکلیف دہ چیز داخل ہے،لہٰذ ا پیشاب سے بھری ہوئی تھیلی یعنی Urine bagمسجد لیجانا بھی چونکہ مسجد کے آداب کے خلاف ہے ،اور عام طور پر نمازیوں کے لیے بھی اذیت اور ناگواری کا باعث ہوتی ہے،اس لیے ایسا معذور شخص جس کو پیشاب کی تھیلی لگی ہو، وہ عام نمازوں میں مسجد نہ جائے،بلکہ اپنے گھر میں ہی نماز پڑ ھ لے،البتہ جمعہ کی نماز چونکہ گھر میں ادا نہیں کی جاسکتی ،اس لیے اگر وہ شہر میں ہے تو جمعہ کی نماز کیلئے درج ذیل شرائط کے ساتھ میں مسجد آنے کی گنجائش ہے:
1۔ تلویثِ مسجد یعنی Urine bagکی وجہ سے مسجد میں ناپاکی پھیلنے کا احتمال نہ ہو۔
2 ۔تھیلی چھپی ہوئی ہو، اور لوگوں کیلئے اذیت کا باعث نہ ہو ۔
3۔بدبو نہ ہو۔
4۔ نیز اگر تھیلی تبدیل کرنا ممکن ہو تومسجد جانے سے پہلے تقلیل ِ نجاست یعنی نجاست کم کرنے کی غرض سے تھیلی تبدیل کر کے صاف تھیلی لگالی جائے،اوراگر تھیلی تبدیل کرنے میں حرج ہو تو پھر کم از کم اس تھیلی سے پیشاب نکال لیا جائے۔(مستفاد از فتویٰ جامعہ دار العلوم کراچی:1718/41)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
1) الدر المختار: (305/1، ط: سعید)
(وصاحب عذر من به سلس) بول....أو انفلات ريح....(إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة)بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل.(وحكمه الوضوء).... (لكل فرض ثم يصلي) به (فيه فرضا ونفلا) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه.
الفتاوى الهندية: (40/1)
شرط ثبوتُ العذرِ ابتداءً: أن يستوعبَ استمرارُه وقت الصلاة كاملا وهو الأظهر ......وشرط بقائه: أن لا يمضي عليه وقت فرض إلا والحدث الذي ابتلي به يوجد فيه هكذا في التبيين. المستحاضة ومن به سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الريح أو رعاف دائم أو جرح لا يرقأ يتوضئون لوقت كل صلاة ويصلون بذلك الوضوء في الوقت ما شاءوا من الفرائض والنوافل هكذا في البحر الرائق.ويبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق. هكذا في الهداية وهو الصحيح
الدر المختار: (306/1، ط: سعید)
(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى، وكذا مريض لا يبسط ثوبه إلا تنجس فورا له تركه.
رد المحتار: (307/1، ط: سعید)
(قوله: وكذا مريض إلخ) في الخلاصة مريض مجروح تحته ثياب نجسة، إن كان بحال لا يبسط تحته شيء إلا تنجس من ساعته له أن يصلي على حاله،
الدر المختار: (307/1، ط: سعید)
(فروع) يجب رد عذره أو تقليله بقدر قدرته ولو بصلاته موميا، وبرده لا يبقى ذا عذر بخلاف الحائض.
فتح القدير: (159/1، ط: رشیدیة)
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح: (ص: 238، ط: دار الكتب العلمية)
قوله: "وفاقد ما يزيل به النجاسة الخ" بقصر ما فيتناول كل المائعات ومثل ما ذكر في المصنف إذا كان لا يمكنه إزالتها إلا بإظهار العورة عند غير من يحل نظره إليه قال الإمام البقالي فإن كان على بدن المصلي نجاسة لا يمكن غسلها إلا بإظهار عورته يصلي مع النجاسة لأن إظهار العورة منهي عنه والغسل مأمور به والأمر والنهي إذا اجتمعا كان النهي أولى كذا في الشرح عن النهاية قوله: "ولا إعادة عليه" أي إذا وجد المزيل وإن بقي الوقت لما ذكره المؤلف وسواء كانت النجاسة في الثوب أو المكان وعدم الوجود يشمل الحقيقي والحكمي بأن وجد المزيل ولم يقدر على استعماله لمانع كحبس وعدو كما في القهستاني.
2) المجموع شرح المهذب: (فصل في المساجد و أحكامها، 175/2، ط: دار الفکر)
يحرم إدخال النجاسة إلى المسجد: فأما من على بدنه نجاسة أو به جرح فإن خاف تلويث المسجد حرم عليه دخوله وإن أمن لم يحرم: قال المتولي هو كالمحدث ودليل هذه المسائل حديث أنس رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال (إن هذه المساجد لا تصلح لشئ من هذا البول ولا القذر إنما هي لذكر الله وقراءة القرآن) أو كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رواه مسلم.
الدر المختار: (باب ما يفسد الصلاة و ما و يكره فيها، 656/1، ط: سعید)
(و) كره تحريما (الوطء فوقه، والبول والتغوط) لأنه مسجد إلى عنان السماء (واتخاذه طريقا بغير عذر) وصرح في القنية بفسقه باعتياده (وإدخال نجاسة فيه) وعليه (فلا يجوز الاستصباح بدهن نجس فيه) ولا تطيينه بنجس (ولا البول) والفصد (فيه ولو في إناء).
رد المحتار: (باب ما يفسد الصلاة و ما و يكره فيها، 656/1، ط: سعید)
(قوله وإدخال نجاسة فيه) عبارة الأشباه: وإدخال نجاسة فيه يخاف منها التلويث. اه. ومفاده الجواز لو جافة، لكن في الفتاوى الهندية: لا يدخل المسجد من على بدنه نجاسة.
الأشباه و النظائر: (ص: 73، ط: دار الكتب العلمية)
ما أبيح للضرورة يقدر بقدرها.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی