سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! بسا اوقات انڈے کے چھلکے پر کوئی نجاست لگی ہوتی ہے، اگر انڈے کو توڑتے وقت نجاست اس کے اندر رہنے والے پانی سے مس ہو جائے، تو انڈا پاک رہے گا یا ناپاک ہو جائے گا؟ کیونکہ ہر جگہ انڈے کو دھو کر نہیں بنایا جاتا، جیسے کے ہوٹلوں میں، اگر اس طرح ٹھیک نہیں، تو ہوٹلوں میں کھانے کا کیا حکم ہوگا؟
گھروں میں یا ہوٹلوں میں انڈے کو ابال کر بھی بنایا جاتا ہے، اور انڈے کے اوپر نجاست لگی ہوتی ہے، لوگ بغیر دھوئے اسے پانی میں ابال دیتے ہیں، تو اس انڈے کو کھانا کیسا ہے؟ ہمیں ایسی جگہ کیا گمان رکھنا چاہیے؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ مرغی کا ایسا انڈا جس پر ظاہری نجاست نہ لگی ہو، پاک ہے، اگر یہ انڈا کسی پانی میں دھوئے بغیر ڈال کر ابال لیا جائے تو اس سے پانی ناپاک نہیں ہوگا اور انڈا اگر ابالتے ہوئے پھٹ جائے اور پانی اندر چلا جائے تو بھی انڈا ناپاک نہیں ہوگا۔
تاہم فقہاء کرام نے احتیاطاً ایسے پانی سے وضو اور غسل کرنے کو مکروہ کہا ہے، البتہ اگر انڈے کے چھلکے پر خون یا بیٹ لگی ہو تو ظاہر ہے کہ ایسا چھلکا ناپاک ہوگا، اگر اسے پانی میں ڈالا جائے تو پانی بھی ناپاک ہوجائے گا اور اگر انڈا ابالتے ہوئے پھٹ جائے اور اس میں پانی چلا جائے تو وہ انڈا بھی ناپاک ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (349/1، ط: دار الفکر)
(قوله: رطوبة الفرج طاهرة) ولذا نقل في التتارخانية أن رطوبة الولد عند الولادة طاهرة، وكذا السخلة إذا خرجت من أمها، وكذا البيضة فلا يتنجس بها الثوب ولا الماء إذا وقعت فيه، لكن يكره التوضؤ به للاختلاف، وكذا الإنفحة هو المختار. وعندهما يتنجس، وهو الاحتياط. اه
غنیة المستملي: (ص: 131، ط: نعمانیۃ)
البيضة اذا وقعت من الدجاجة في الماء او المرقه لاتفسده وكذا السخلة اذا وقعت من أمها رطبة في الماء لاتفسده كذا في كتب الفتاوى وهذا لان الرطوبة التي عليها ليست بنجسة لكونها في محلها.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی