سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ہماری کمپنی کی طرف سے دی گئی مراعات کے بارے میں رہنمائی فرمادیں۔
گاڑی کا ایک basic variant authorize ہے، اگر اس سے بہتر variant لینا ہو، تو اوپر کی رقم وصول کی جاتی ہے، پھر گاڑی ملنے کی صورت میں کمپنی کے نام پر ہی رجسٹرڈ رہے گی جب تک کنٹریکٹ پورا نہیں ہوجاتا، کنٹریکٹ پورا ہونے کے وقت گاڑی کی ہر سال depreciation کا حساب لگایا جاتا ہے، اور فائنل بُک ویلیو کے حساب سے رقم وصول کرکے گاڑی فرد کے نام ٹرانسفر کردی جاتی ہے، وہ گاڑی جب تک کمپنی کے نام ہوتی ہے، انشورنس بھی کیا جاتا ہے، اور بہتر variant بُک کرانے کی صورت میں انشورنس کی اضافی رقم ملازم کو ادا کرنی ہوتی ہے، کیا کمپنی کی طرف سے دی گئی اس طرح کی مراعات لینا جائز ہے یا ناجائز ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
جواب: کمپنی کی طرف سے ملنے والی گاڑی اگر ملازم کو قسطوں میں فروخت کی جاتی ہے، تو اس کا حکم یہ ہے کہ طے شدہ قیمت پر قسطوں میں گاڑی کی خرید و فروخت جائز ہے، نیز ملازم کیلئے مقررہ لمٹ سے زیادہ مہنگی گاڑی خریدنے کی صورت میں اضافی رقم ملازم سے نقد وصول کرنا، نیز ساری قیمت کی وصولی سے پہلے ملازم کے نام پر گاڑی ٹرانسفر نہ کرنا بھی شرعا درست ہے۔
البتہ خرید وفروخت کے نتیجے میں چونکہ شرعی طور پر اس گاڑی کا مالک خریدار (ملازم) ہے، اس لئے اس دوران گاڑی کی مالیت کم ہونے (depreciation) کی ذمہ داری بھی اسی پر ہوگی، کمپنی پر لازم نہیں ہے کہ اس کی تلافی کرکے دے۔
واضح رہے کہ انشورنس سود قمار اور غرر پر مستمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے، (لیکن اگر گاڑی کی انشورنس کمپنی کراکے دیتی ہے، تو اس کا گناہ ملازم پر نہیں ہوگا) تاہم انشورنس کے متبادل کے طور پر ضرورت کے موقع پر مستند علماء کرام کی زیر نگرانی چلنے والی کسی تکافل کمپنی سے معاملہ کیا جاسکتا ہے۔
نوٹ: اگر کمپنی گاڑی کی سہولت خرید وفروخت کے علاوہ کسی اور طریقہ کی بنیاد پر دیتی ہے تو اس کی تفصیلات بتا کر دوبارہ مسئلہ دریافت کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مجلة الأحکام العدلیۃ: (المادة: 225)
البیعُ مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح
بحوث فی قضایا فقہیة معاصرة: (12/1، ط: دار العلوم كراتشي)
أما الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموٴجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع موٴجل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد
فقہ البیوع: (1066/2، ط: مکتبہ دار العلوم کراتشي)
أما عملیۃ التأمین، فعملیۃ تشتمل علی الربوا أو علی الغرر أو علیھما کما سیأتی إن شاء اللہ تعالی. و بھذا أفتی جمھور العلماء المعاصرین والمجامع الفقھیۃ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی