سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! سادات کی تعظیم کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ فرض، واجب، سنت یا مستحب ہے؟ اور اگر کوئی سید فاسق ہو، تو اس کی تعظیم کا کیا حکم ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
جواب: 1- ہمارے معاشرے میں جن حضرات کو "سید" کہا جاتا ہے، یہ وہ حضرات ہیں، جو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے صاحبزادگان حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی اولاد میں سے ہوں، یہ حضرات آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی نسبی اولاد ہیں، تفسیر معارف القرآن میں حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے: "اہل بیت وآل رسول صلى اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ امت میں کبھى زیر اختلاف نہیں رہا، باجماع واتفاق ان کى محبت وعظمت لازم ہے....آل رسول صلى اللہ علیہ وسلم ہونے کى حیثیت سے عام سادات خواہ ان کا سلسلہ نسب کتنا ہى بعید بھى ہو، ان کى محبت وعظمت عین سعادت واجر وثواب ہے"۔
(معارف القرآن: 691/7، سورۃ الشورى، آیت نمبر: 23)
2- "سید" کی نبی کریم ﷺ کی طرف نسبت یقیناً ایک بہت بڑی سعادت اور فضیلت کی بات ہے، جو کہ محض اللہ تعالی کی عطا ہے، لیکن صرف نسبت کافی نہیں ہے، بلکہ یہ نسبی شرافت باعث احترام تب بنے گی، جب سید شریعت کا پابند ہو، ورنہ خود آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اللّٰہ کی قسم ! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ ڈالوں"
(صحیح البخاری: حدیث نمبر: 3475)
لہذا اگر خدانخوستہ کسی سید سے کوئی کبیرہ گناہ وغیرہ سرزد ہوجائے اور وہ گناہ کفر وشرک کی حد تک نہ پہنچا ہو اور اس گناہ کا تعلق صرف اس کی ذات کی حد تک ہو، تو اس کے احترام میں کمی نہیں کرنی چاہیے۔
لیکن اگر سید کا گناہ کفر وشرک تک پہنچ جائے یا احکام شریعت کی کھلم کھلا بغاوت کرنے لگے، یا اس کا فسق و فجور اس حد تک بڑھ جائے کہ لوگوں پر ظلم اور ان کی حق تلفی کرنے لگے، تو ایسے سید کا احترام ممنوع ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ، باب حدیث الغار، رقم الحدیث: 3475، 175/4، ط: دار طوق النجاۃ)
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها ان قريشا اهمهم شان المراة المخزومية التي سرقت، فقال: ومن يكلم فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: ومن يجترئ عليه إلا اسامة بن زيد حب رسول الله صلى الله عليه وسلم فكلمه اسامة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اتشفع في حد من حدود الله ثم قام فاختطب ثم، قال: إنما اهلك الذين قبلكم انهم كانوا إذا سرق فيهم الشريف تركوه وإذا سرق فيهم الضعيف اقاموا عليه الحد وايم الله لو ان فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی