سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ایک شخص اپنے بھتیجی کو چھت پر کھلا رہا تھا، جھولے دے رہا تھا کہ اچانک اس کے ہاتھ سے بچی چُھٹ کر گِر گئی، اور ایک سریے کے ساتھ اٹک گئی، جب اسے سریے سے نکالنے کیلئے نیچے کو ہوئے، تو چھت پر بلاک کی دیوار سی بنی ہوئی تھی، جیسے ہی نیچے کو ہوتا ہے، تو وہ خود بلاک سمیت اور بچی بھی نیچے گر جاتی ہے، بچی کی نیچے گرنے کی وجہ سے موت واقعہ ہو جاتی ہے، اب پو چھنا یہ ہے کے ہمارے گاؤں کے ایک مولوی صاحب نے کہا ہے کہ "اس لڑکے کو 40 دن کے روزے رکھنے ہیں، اس نے قتل کیا ہے" کیا وہ یہ بات ٹھیک کہے رہے ہیں؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں آدمی کے ہاتھ سے بچی کا گِر کر مرنا شرعاً قتل جاری مجریٰ خطا کے حکم میں ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ اس آدمی کے عاقلہ پر دیت اور خود اس آدمی پرکفارہ واجب ہے، اور اگر عاقلہ دیت ادا کرنے سے عاجز ہوں، تو اس صورت میں مکمل دیت قاتل کے اپنے مال میں واجب ہوگی۔
کفارہ میں اس آدمی پر مسلسل ساٹھ روزے رکھنا واجب ہے، اس طرح کہ اگر درمیان میں ایک روزہ بھی رہ جائے، تو ازسرِ نو روزے رکھنا ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (3/6، ط: دار الفکر)
وأما ما جرى مجرى الخطأ فهو مثل النائم ينقلب على رجل فيقتله فليس هذا بعمد، ولا خطأ كذا في الكافي وكمن سقط من سطح على إنسان فقتله، أو سقط من يده لبنة، أو خشبة، وأصابت إنسانا وقتلته، أو كان على دابة فوطئت دابته إنسانا هكذا في المحيط - وحكمه - حكم الخطأ من سقوط القصاص ووجوب الدية والكفارة وحرمان الميراث كذا في الجوهرة النيرة.
و فيها أيضا: (24/6)
قال أبو حنيفة - رحمه الله تعالى -: من الإبل مائة، ومن العين ألف دينار، ومن الورق عشرة آلاف، وللقاتل الخيار يؤدي أي نوع شاء كذا في محيط السرخسي.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی