سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میرے بھائی کا 63 سال کی عمر میں 10 جولائی 2022 میں انتقال ہوگیا ہے، 15 اگست کو ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی شادی ہے، میری بیوہ بھابھی جو 60 سال کی ہیں، وہ اپنے بچوں کی شادی میں کیسے شریک ہوں، کیونکہ وہ عدت میں ہے، ہم نے پڑھا ہے کہ عورت عدت میں ہو، تو ضروری کام کے لیے باہر جاسکتی ہے، بچوں کی شادی سے زیادہ ضروری کیا کام ہوسکتا ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ عدت کے دوران بلا عذرِ شرعی بیوہ کا باہر نکلنا شرعاً جائز نہیں ہے، البتہ اگر کوئی سخت مجبوری درپیش ہو، تو اس کے لیے باہر نکلنا جائز ہے، مثلاً شدید بیماری میں علاج کے غرض سے ڈاکٹر کے پاس جانا ہو، یا مثلاً گھر کی چھت گرنے کا امکان ہو، یا کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے مکان خالی کرنا پڑے، وغیرہ، جب کہ شادی میں شرکت کرنا ایسا عذر نہیں ہے، جس کی وجہ سے نکلنے کی گنجائش ہو۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں عدت کے دوران بیوہ شادی میں شرکت کے لیے گھر سے باہر نہیں نکل سکتی، البتہ گھر کے اندر رہتے ہوئے بغیر زیب و زینت اختیار کیے شادی میں آئے ہوئے مہمانوں (محرم مردوں اور عورتوں) سے ملاقات کرسکتی ہے، اور اگر بچے اپنی شادی میں ان کی شرکت کو ضروری سمجھتے ہوں، تو شادی کو مؤخر کرکے عدت کے بعد کی کوئی تاریخ مقرر کی جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکريم: (البقرة، الاية: 234)
وَٱلَّذِينَ يُتَوَفَّوۡنَ مِنكُمۡ وَيَذَرُونَ أَزۡوَٰجٗا يَتَرَبَّصۡنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرۡبَعَةَ أَشۡهُرٖ وَعَشۡرٗاۖ فَإِذَا بَلَغۡنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ فِيمَا فَعَلۡنَ فِيٓ أَنفُسِهِنَّ بِٱلۡمَعۡرُوفِۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعۡمَلُونَ خَبِيرٞo
الدر المختار: (536/3، ط: الحلبي)
(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی