سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ہمارے علاقے میں ایک بندہ جوڑوں کے درد کا دم کرتا ہے، اور وہ اس پر پہلے سورہ یاسین سے " وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ " پڑھتے ہیں، اور پھر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام " محمد، احمد، محمود، عاقب، فاتح، حاشر، ماح، داع، رسول، مہد، طه، یاسین " سات یا نو مرتبہ پڑھتے ہیں، اور آ خر میں پھر سورہ یاسین سے " سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ " پڑھ کر دم کرتے ہیں۔ آپ حضرات سے گزارش ہے کہ رہنمائی فرمائیں کہ کیا اس طرح سے دم کروانا ٹھیک ہے یا نہیں؟ کیونکہ کوئی کہتا ہے کہ صرف قرآنی آیات اور اسماء الحسنٰی سے دم کر سکتے ہیں، تو کوئی کچھ اور کہتا ہے۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ ایسے تعویذات اور جھاڑ پھونک جو آیاتِ قرآنیہ، ادعیہ ماثورہ یا کلماتِ صحیحہ پر مشتمل ہوں، ان سے علاج کرنا شرعاً درست ہے، کیونکہ اس کی حقیقت ایک جائز تدبیر سے زیادہ کچھ نہیں، اور جن تعویذات یا جھاڑ پھونک میں کلماتِ شرکیہ، کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منتر لکھے جائیں یا انہیں مؤثر حقیقی سمجھا جائے، تو ان کا استعمال شرعاً جائز نہیں ہے۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صفاتی نام دم میں درود شریف کے ضمن میں ذکر کیے جاتے ہیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ایسا دم کرنا جائز ہے۔
لیکن اگر دم کرنے والے کا مقصد ان صفاتی ناموں کے ذریعے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مخاطب کرکے آپ سے مریض کی شفایابی کے لیے مدد طلب کرنے کا عقیدہ ہے، تو ایسی صورت میں یہ شرکیہ عمل ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح مسلم: (باب لا بأس بالرقی مالم یکن فیه شرك، رقم الحدیث: 2200، 1727/4، ط: دار إحیاء التراث العربي)
" عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: كنا نرقي في الجاهلية، فقلنا: يا رسول الله! كيف ترى في ذلك؟ فقال: «اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى مالم يكن فيه شرك»".
رد المحتار: (کتاب الحظر و الاباحة، 363/6، ط: سعید)
"[فرع] في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير العربية.
(قوله: التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن، وقيل: هي الخرزة التي تعلقها الجاهلية اه فلتراجع نسخة أخرى. وفي المغرب: وبعضهم يتوهم أن المعاذات هي التمائم، وليس كذلك! إنما التميمة الخرزة، ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال: رقاه الراقي رقياً ورقيةً: إذا عوذه ونفث في عوذته، قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو، ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به اه ... وفي المجتبى: اختلف في الاستشفاء بالقرآن بأن يقرأ على المريض أو الملدوغ الفاتحة، أو يكتب في ورق ويعلق عليه أو في طست ويغسل ويسقى.وعن «النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يعوذ نفسه». قال - رضي الله عنه -: وعلى الجواز عمل الناس اليوم، وبه وردت الآثار"
نجم الفتاوي: (فصل فی التعویذات، 517/1، ط: دار العلوم یاسین القرآن)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی