عنوان: سات تولہ سے کم سونے کی زکوة کا حکم (9688-No)

سوال: آپ سے زکوة کے بارے میں ایک سوال پوچھنا تھا کہ اگر کسی عورت کے پاس ساڑھے سات تولہ سے کم سونا ہو اور اس کا خاوند اسے ہر ماہ 2000 یا 3000 روپے جیب خرچ دیتا ہو اور وہ اسے مہینے میں یا دو مہینے میں خرچ کردیتی ہو، خلاصہ یہ کہ ہر ماہ پیسے ملتے ہوں اور خرچ ہوتے ہوں تو کیا اس پر زکوة ہوگی؟ کیونکہ میں نے ایک فتوی دیکھا تھا کہ اگر کسی کے پاس صرف ایک تولہ سونا ہو اور اس کے ساتھ کچھ رقم بھی ہو چاہے دس بیس روپے ہی کیوں نہ ہو تو اس پر زکوة واجب ہوگی اور رقم پر سال گزرنا بھی لازم نہیں۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ سونے کیساتھ جو رقم ہو اس پر کتنا عرصہ گزر جائے تو زکواة واجب ہوگی؟ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ اس جیب خرچ کی رقم کو ایک مہینے میں نہیں بلکہ دو تین مہینے رکھ کر خرچ کرلے۔

جواب: 1- اگر کسی کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سے کم سونا ہو اور اس کے ساتھ سال کے شروع اور آخر میں چاندی، مال تجارت یا ضرورت سے زائد نقد رقم ہو اور ان سب کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر ہو، تو ایسے شخص پر زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگا، لیکن اگر اس سونے کے ساتھ سال کے شروع اور آخر میں ضرورت سے زائد نقد رقم یا مال تجارت یا چاندی نہ ہو، بلکہ درمیان سال میں رقم آتی رہی اور خرچ ہوتی رہی، تو ایسے شخص پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔
2- ایک مرتبہ زکوٰۃ کے نصاب کا مالک بن جانے کے بعد مال کے ہر ہر حصے پر علیحدہ علیحدہ مکمل سال گزرنا ضروری نہیں ہے، لہذا جب کوئی شخص زکوٰۃ کے نصاب کا مالک بن گیا، تو سال مکمل ہونے کے بعد اس کی ملکیت میں موجود تمام قابلِ زکوٰۃ اثاثوں کا حساب کیا جائے گا، اگر وہ نصاب کے برابر یا زیادہ ہوں تو زکوٰۃ لازم ہوگی، درمیان سال میں آنے والی ہر ہر رقم پر علیحدہ علیحدہ سال گزرنا ضروری نہیں ہے۔
مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق اگر کسی خاتون کے پاس سونا ساڑھے سات تولے سے کم ہو اور اس کے پاس کچھ نقدی بھی ہو، جو اس کی ضرورت (مثلاً: گھریلو ماہانہ اخراجات) سے زائد ہو، اس سونے اور نقدی کو ملا کر چاندی کا نصاب (ساڑھے باون تولہ) کی مالیت پوری ہوتی ہو، تو وہ خاتون زکوٰۃ کے نصاب کی مالک بن جائے گی، اور اگر سال پورا ہونے پر بھی اس کی یہی صورت ہو، تو ایسی خاتون پر زکوٰۃ ادا کرنا شرعاً واجب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (302/2، ط: دار الفکر)
"(وشرط كمال النصاب) ولو سائمة (في طرفي الحول) في الابتداء للانعقاد وفي الانتهاء للوجوب (فلا يضر نقصانه بينهما) فلو هلك كله بطل الحول".

البحر الرائق: (247/2، ط: دار الکتاب الاسلامي)
"(قوله ونقصان النصاب في الحول لا يضر إن كمل في طرفيه) ؛ لأنه يشق اعتبار الكمال في أثنائه إما لا بد منه في ابتدائه للانعقاد وتحقيق الغناء، وفي انتهائه للوجوب".

بدائع الصنائع: (19/2، ط: دار الکتب العلمیة)
"فأما إذا كان له الصنفان جميعا فإن لم يكن كل واحد منهما نصابا بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا....(ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة ؛ ولأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما وهو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة والثمنية، فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد ؛ ولهذا اتفق الواجب فيهما وهو ربع العشر على كل حال وإنما يتفق الواجب عند اتحاد المال.
وأما عند الاختلاف فيختلف الواجب وإذا اتحد المالان معنىً فلايعتبر اختلاف الصورة كعروض التجارة، ولهذا يكمل نصاب كل واحد منهما بعروض التجارة ولايعتبر اختلاف الصورة، كما إذا كان له أقل من عشرين مثقالاً وأقل من مائتي درهم وله عروض للتجارة ونقد البلد في الدراهم والدنانير سواء، فإن شاء كمل به نصاب الذهب وإن شاء كمل به نصاب الفضة، وصار كالسود مع البيض، بخلاف السوائم؛ لأن الحكم هناك متعلق بالصورة والمعنى وهما مختلفان صورة ومعنى فتعذر تكميل نصاب أحدهما بالآخر".

کذا فی فتاوي بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 143909200607

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 845 Jul 20, 2022
sahib e nisab ban jane k bad maal per saal guzarne ka matlab or saat / 7 tola se / say kum sone / gold ki zakat ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.