عنوان: کسی معروف کمپنی (Brand) کی نقل (Copy) کرکے اس جیسے کپڑے بناکر فروخت کرنے کا حکم (9711-No)

سوال: آج کل مارکیٹ میں مختلف برینڈز کے کپڑوں کی کاپیوں کا کاروبار بہت زور و شور سے چل رہا ہے ، ان کپڑوں پر صاف برینڈ کا نام لکھا ہوتا ہے، جب کہ یہ کپڑے اصل برینڈ کے نہیں ہوتے، بلکہ Replica شمار ہوتے ہیں اور ان برینڈ کی کمپنیوں کو معلوم بھی ہوتا ہے کہ ہمارا نام اس طرح استعمال کیا جارہا ہے، جیسے الکرم ٹیکسٹائل ایک برینڈ ہے اور جہاں یہ فیکٹری ہے، اسی کے ساتھ ہی الکرم کپڑا گلی ہے، جہاں اسی برینڈ کے کپڑوں کی کاپیاں مل رہی ہیں، لیکن فیکٹری کو باوجود معلوم ہونے کے انہیں کچھ نہیں کہتے، کاپیاں بنانے کی عموماً وجہ یہ ہوتی ہے کہ سیل زیادہ ہو، کیونکہ لوکل کہیں گے تو لوگ کم خریدیں گے، اور کوالٹی ان کی مختلف ہوتی ہے، بسا اوقات اصل جیسی بھی ہوتی ہے اور بسا اوقات اس سے کم تاکہ متوسط طبقہ بھی اسے باآسانی خرید سکے۔
پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح کپڑوں کی کاپیاں بیچنا کاپی بتا کر جائز ہے؟
اگر کاپی کا نہ بتایا جائے، لیکن اس کے ریٹ ہی ایسے رکھ لیےجائیں کہ اس کے ریٹ کے سنتے ہی سمجھدار آدمی یہ سمجھ جائے کہ یہ اصل تو نہیں ہوسکتا، کیونکہ اصل کی قیمت پانچ ہزار اور کاپی کی قیمت دو ہزار روپے تو کیا اس طرح بغیر کاپی بتائے بیچنا جائز ہے؟

جواب: کسی معروف کمپنی کی نقل (Copy) کرکے اس جیسے کپڑے بناکر بیچنا فی نفسہ جائز ہے، بشرطیکہ اس میں کسی قسم کا دھوکہ اور جھوٹ نہ ہو، نیز اس سے ملکی جائز قانون کی خلاف ورزی بھی لازم نہ آتی ہو۔
اگر پہلی شرط نہ پائی جائے، تو ایسا معاملہ درست نہیں، اور دوسری شرط نہ پائی جائے، تو معاملہ تو درست ہوگا، لیکن ایک جائز ملکی قانون کی خلاف ورزی کا گناہ ہوگا۔
پوچھی گئی صورت میں کاپی (Copy) کیے گئے کپڑوں پر اصل معروف کمپنی (Brand) کا نام لکھنا دھوکہ دہی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعا درست نہیں ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے، تاہم اگر کوئی ایسی علامت یا نشاندہی ہو کہ جس سے اس کپڑے کے کاپی (Copy) ہونے کی وضاحت ہورہی ہو، اور خریدار کو نام سے دھوکہ نہ لگے، تو پھر اس نام کے ساتھ کپڑے کو فروخت کرنا شرعا درست ہے، بشرطیکہ ملکی جائز قانون کی خلاف ورزی لازم نہ آئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذي: (598/3، ط: مطبعة مصطفی البابي الحلبي)
عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة من طعام، فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا، فقال: «يا صاحب الطعام، ما هذا؟» ، قال: أصابته السماء يا رسول الله، قال: «أفلا جعلته فوق الطعام حتى يراه الناس» ، ثم قال: «من غش فليس منا» وفي الباب عن ابن عمر، وأبي الحمراء، وابن عباس، وبريدة، وأبي بردة بن نيار، وحذيفة بن اليمان: حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح والعمل على هذا عند أهل العلم كرهوا الغش، وقالوا: الغش حرام.

عون المعبود: (231/9، ط: دار الکتب العلمیة)
والحديث دليل على تحريم الغش وهو مجمع عليه.

البحر الرائق شرح كنز الدقائق: (38/6، ط: دار الکتاب الاسلامي)
وضابط الغش المحرم أن يشتمل المبيع على وصف نقص لو علم به المشتري امتنع عن شرائه فكل ما كان كذلك يكون غشا وكل ما لا يكون كذلك لا يكون غشا محرما.

بدائع الصنائع: (100/7، ط: دار الکتب العلمیة)
ولو أمرهم بشيء لا يدرون أينتفعون به أم لا، فينبغي لهم أن يطيعوه فيه إذا لم يعلموا كونه معصية؛ لأن اتباع الإمام في محل الاجتهاد واجب، كاتباع القضاة في مواضع الاجتهاد.

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1618 Jul 26, 2022
kisi maroof company brand ki naqal / copy kar k us jese kapre / libas bana kar farokht / sale karne ka hokom / hokum?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.