سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ایک شخص نے قسطوں پر ایک پلاٹ خریدا، دو مہینے قسط ادا نہ کرنے پر اس پر جرمانہ لگا، اس نے وہ جرمانہ ادا کردیا، لیکن بعد میں کسی نے اس کو بتایا کہ یہ جرمانہ جائز نہیں، اب وہ اس معاملے کو ختم کرنا چاہتا ہے، لیکن اگر ختم کرے گا، تو اس کے دیے ہوئے پیسوں سے تیس فیصد کٹوتی کی جائےگی، اب شریعت کے رو سے اسے کیا کرنا چاہیے؟
تنقیح:
محترم ! اس سوال کے جواب کے لیے یہ وضاحت فرمائیں کہ کیا پلاٹ خریدتے وقت اصل معاہدے میں یہ بات موجود تھی کہ اگر قسط بر وقت ادا نہ کی گئی، تو اس کی وجہ سے مالی جرمانہ ادا کیا جائے گا؟
اس وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکتا ہے۔
جزاک اللہ خیرا
جواب تنقیح:
معاہدہ کے وقت جرمانہ کا کوئی بات نہیں کیا تھا اور نہ بائع نے بتایا تھا کہ تاخیر قسط پر جرمانہ لگے گا۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ شخص کیلئے فی الحال یہ معاملہ جاری رکھنا جائز ہے، تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ آئندہ کسی قسط میں تاخیرنہ کرے، کیونکہ قسط میں تاخیر کی بنیاد پر لگایا جانے والا جرمانہ سود ہے، جس سے بچنا ہر حال میں ضروری ہے، اور اس کی صورت یہی ہے کہ تمام اقساط اپنے وقت پر ادا کی جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (آل عمران، الآية:130)
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَأۡكُلُواْ ٱلرِّبَوٰٓاْ أَضۡعَٰفٗا مُّضَٰعَفَةٗۖ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ o
فقه البيوع: (1/546، ط: معارف القران، كراتشي)
إن زيادة الثمن من أجل الأجل، وإن كان جائزا عند بداية العقد، ولكن لا تجوز الزيادة عند التخلف في الأداء، فإنه ربا في معنى "أتقضي أم تربي"؟"، وذلك لأن الأجل، وإن كان منظورا عند تعيين الثمن في بداية العقد، ولكن لما تعين الثمن، فإن كله مقابل للمبيع، وليس مقابلا للأجل، ولذلك لا يجوز "ضع وتعجل" كما سيأتي تفصيله إن شاء الله تعالى. أما إذا زيد في الثمن عند التخلف في الأداء، فهو مقابل للأجل مباشرة لا غير، وهو الربا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی