سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میں نے اپنی گاڑی بیچ دی، بات طے ہو گئی کہ خریدار اپنے ماموں کے ساتھ دو دن کے بعد آئے گا، ان کو دکھا کر پھر لے جائے گا، ایک دن کے بعد میرا ارادہ بدل گیا کہ ابھی میں نے گاڑی نہیں بیچنی، میں نے اس کو فون کرکے منع کردیا کہ میں نے اپنا ارادہ بدل دیا، اس میں میں گناہ گار تو نہیں ہوں گا؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
تنقیح:
محترم ! آپ اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ آیا خریدار نے گاڑی پہلے تصویر وغیرہ میں دیکھ کر خریدی ہے اور اس گاڑی کی خریداری پر مطمئن ہے، اب صرف اپنے ماموں کو دکھانا چاہتا ہے اور یہ دیکھنا معاملہ طے کرنے کے لیے شرط نہیں ہے؟
یا پھر خریدار نے گاڑی سرے سے دیکھی ہی نہیں ہے اور معاملہ اس شرط پر ہوا ہے کہ خریدار اور اس کا ماموں پہلے گاڑی دیکھیں گے اور اس کے بعد معاملہ طے ہوگا؟
اس وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکتا ہے۔
جواب تنقیح:
جی خریدار نے گاڑی خود آکر دیکھی تھی۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ طرفین (بائع ومشتری) کے درمیان ایجاب و قبول ہوکر معاملہ طے ہوچکا ہے، لہذا بائع (فروخت کنندہ) کا مشتری (خریدار) کی رضامندی کے بغیر معاملہ فسخ کرنا ناجائز اور گناہ کا کام ہے، بائع کی ذمہ داری ہے کہ وہ مبیع (فروخت کردہ چیز) مشتری کے حوالے کردے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (506/4، ط: دار الفکر)
وحكمه: ثبوت الملك.
(قوله: وحكمه: ثبوت الملك): أي في البدلين، وهذا حكمه الاصلي، والتابع وجوب تسليم المبيع والثمن، ووجوب استبراء الجارية على المشتري، وملك الاستمتاع بها، وثبوت الشفعة لو عقارا، وعتق المبيع لو محرما من البائع، بحر، وصوابه من المشتري.
الفتاوي الهندية: (58/3، ط: دار الفكر)
من اشتري شيئا لم يره فله الخيار اذا رآه إن شاء أخذه بجميع ثمنه وإن شاء رده، سواء رآه على الصفة التي وصفت له أو على خلافها كذا في فتح القدير، هو خيار يثبت حكما لا بالشرط كذا في الجوهرة النيرة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی