سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! چھ سال پہلے ہم نے جس سے فلیٹ خریدا تھا، انہوں نے property text کے پیپر clear کروا کر نہیں دیئے تھے، اس وقت تک ٹیکس کی رقم ساٹھ ہزار تھی، جن صاحب سے ہم نے فلیٹ کی file اپنے نام transfer کراوئی تھی، انہوں نے کہا کہ آپ پچاس ہزار ٹیکس کی مد میں روک لیں، اور file transfer کروانے والے نے ہم سے دس ہزار لیے کہ آپ کا ٹیکس کا معاملہ clear ہوجائے گا، جب سے ہم نے فلیٹ خریدا، ہمارے پاس ٹیکس کا کوئی چالان نہیں آیا، اب چھ سال بعد ہم نے ٹیکس کے پیپر نکلوائے ہیں، جس پر انہوں نے 98635 کا چالان بنایا، اور office والوں نے کہا کہ اکیس سال سے اس فلیٹ کا کسی نے بھی ٹیکس pay نہیں کیا، مگر ہمیں اس گھر میں رہتے ہوئے چھ سال ہوئے ہیں، ہم نے office میں یہ بات کہی کہ یہ رقم ہمارے لیے بہت زیادہ ہے، تو انہوں نے ہمیں کہا کہ اٹھانوے ہزار کی جگہ باسٹھ ہزار pay کردیں، تیس ہزار کا چالان آپ بینک میں جمع کروائیں، اور بتیس ہزار ہمیں cash دیں، آپ سے گزارش ہے کہ اس معاملہ میں ہمارے رہنمائی فرمائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ جزاک اللہ خیراً
جواب: اصولی طور پر آپ کے ذمہ قانونی طور پرجتنا ٹیکس بنتا ہے، اس کی ادائیگی ضروری ہے، تاہم اگر متعلقہ ادارے کی طرف سے آپ پر قانونا واجب الاداء ٹیکس سے زائد ظلماََ ٹیکس لیا جا رہا ہو، اور رشوت لیے بغیر کم نہیں کیا جارہا ہو، تو ایسی صورت میں مجبورا پیسے (رشوت) دینے کی گنجائش ہے، تاہم رشوت لینے والوں کے حق میں رشوت کی رقم لینا اور اسے استعمال کرنا بہرحال ناجائز اور حرام ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (607/9، ط: زکریا)
(قوله اذا خاف علی دینه) عبارۃ لا بأس بالرشوة إذا خاف علی دینه۔۔۔۔۔
دفع المال للسطان الجائر لدفع الظلم عن نفسہ ومالہ و لاستخراج حقٍّ لہ لیس برشوة یعني في حق الدَّافع اھ
الفتاوي الهندیة: (331/3، ط: زکریا)
ونوع منها․․․ أو یهدي إلی السلطان مالاً؛ لیدفع ظلمه عن نفسه أو عن ماله وهذا نوع لا یحل الأخذ لأحد․․․ وهل یحل للمعطي الإعطاء؟ عامة المشائخ علی أنه یحل؛ لأنه یجعل ماله وقایةً لنفسه أو یجعل بعض ماله وقایةً للباقي
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی