سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! مسجد میں امام صاحب کے لیے بنائے ہوئے کمرے کو کوئی شخص اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرسکتا ہے؟
صورت حال یہ ہے کہ رہائشی ٹاؤن میں ٹاؤن بنانے والوں نے لوگوں کے لئے مسجد بنائی ہے، جس میں امام صاحب کی رہائش وغیرہ کے لئے ایک کمرہ بھی بنایا ہے، جس میں امام صاحب رہائش پذیر ہیں، اب ہوا یہ کہ ٹاون والے اس کمرے سے امام صاحب کو نکال کر کمرے کو ٹاؤن کی انتظامی امور(سیکورٹی، لین دین یا انتظامیہ کے لوگوں) کا دفتر بنا رہے ہے۔ براہ کرم اس مسئلہ میں شرعی رہنمائی فرمائیں۔
اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر مذکورہ کمرہ مسجد کی حدود میں واقع ہے، یا مسجد کی حدود میں تو واقع نہیں ہے، لیکن بنانے والے نے مسجد کے لئے وقف کر دیا تھا، تو اس صورت میں اس کمرے کو صرف مسجد کے مصالح و منافع کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے، کسی دوسرے کام میں اسکا استعمال جائز نہیں ہوگا، البتہ اگر مذکورہ بالا کمرہ مسجد کی حدود میں واقع نہیں ہے، اور نہ ہی اسے مسجد کے لئے وقف کیا گیا ہے، تو اس صورت میں اس کا استعمال مسجد کے مصالح و منافع کے لئے ضروری نہیں ہے، بلکہ دوسرے کاموں کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (351/4، ط: دار الفکر)
فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن.
الھدایة: (310/6، ط: دار الفکر)
إذا صح "خرج من ملك الواقف ولم يدخل في ملك الموقوف عليه" لأنه لو دخل في ملك الموقوف عليه لا يتوقف عليه بل ينفذ بيعه كسائر أملاكه
الهندية: (362/2، ط: دار الفکر)
البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه والأصح أنه لا يجوز كذا في الغياثية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی