عنوان: کمپنی کی طرف سے ریٹ تبدیل ہونے کے بعد پرانی چیزیں نئی قیمت پر فروخت کرنا(9753-No)

سوال: میں ایک تاجر ہوں، کاسمیٹکس کی تجارت کرتا ہوں، گزشتہ ایک سال سے تجارت میں نقصان ہو رہا ہے، وہ کچھ اس طرح کہ کمپنی ہر دو تین دن بعد اپنی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہے، اگر آج میں نے ایک چیز 100 روپے کی خرید کر 110 روپے کی فروخت کی ہے، تو کل کمپنی وہ چیز مجھے 130 روپے کی دیتی ہے، جبکہ میرے پاس پرانی خرید کی چیز موجود ہے، تو کیا میں پرانی خرید کی ہوئی چیز کمپنی کی نئے قیمت پر فروخت کر سکتا ہوں؟

جواب: واضح رہے کہ انسان کو اختیار ہے کہ وہ اپنی مملوکہ چیز جس قیمت پر چاہے بیچ سکتا ہے،(تاہم کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر مارکیٹ ریٹ سے زیادہ مہنگے داموں پر فروخت کرنا شرعا پسندیدہ نہیں ہے، مروت کے بھی خلاف ہے۔)
لہذا پوچھی گئی صورت میں پرانی خریدی ہوئی چیزوں کو باہمی رضامندی سے نئی قیمت کے مطابق فروخت کرنا شرعا درست ہے، البتہ اگر آپ کا کمپنی کے ساتھ پرانی چیزوں کو پرانے ریٹ پر ہی فروخت کرنے کا معاہدہ ہو، تو اس معاہدہ کی پاسداری شرعا ضروری ہوگی، زیادہ ریٹ پر فروخت کرنے کی صورت میں اس معاہدہ کی خلاف ورزی کا گناہ ہوگا، تاہم اگر گاہک کے ساتھ باہمی رضامندی سے کوئی بھی ریٹ طے کرکے کسی چیز کو فروخت کیا جائے، تو پھر اس اضافی منافع کو ناجائز یا حرام نہیں کہا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (الاسراء، الایة: 34)
وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ ۖ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُوْلًاo

بحوث فی قضایا فقھیة معاصرۃ: (13/1، ط: دار القلم)
وللبائع ان یبیع بضاعتہ بما شاء من ثمن، ولا یجب علیہ ان یبیعھا بسعر السوق دائما.

الدر المختار مع رد المحتار: (400/6، ط: دار الفکر)
(ولا یسعر حاکم) لقوله علیه الصلاۃ والسلام: لاتسعروا فان اللہ ھو المسعر القابض الباسط الرازق (الا اذا تعدي الارباب عن القیمة تعدیا فاحشا فیسعر بمشورۃ اھل الراي)

واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1544 Aug 05, 2022
company ki taraf se rate tabdeel hone k bad purani cheezein nai / new qeemat per farokht karna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.