سوال:
کیا عورت کا نامحرم مردوں کے سامنے قرأت کرنا جائز ہے؟
جواب: کسی عورت کا نامحرم مرد سے بلا ضرورت شدیدہ بات چیت کرنا، پڑھنا اور پڑھانا شرعا ناجائز ہے۔
اور خاص طور پر قرآن کریم کی تعلیم اور تلاوت میں تو تجوید کے ساتھ پڑھنے میں حروف کے حسن ادائیگی کے لیے آواز میں اتار چڑھاؤ اور خوش الحانی کا اہتمام کرنا پڑتا ہے، جبکہ عورت کی آواز میں فطری طور پر لطافت اور لچک ہوتی ہے، جس سے نامحرم مردوں کا فتنے میں مبتلا ہونے کا غالب گمان ہے، اس لئے عورت کو نامحرم مردوں کے سامنے تلاوت کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (باب شروط الصلاۃ، فصل في النظر و اللمس، 406/1)
نغمۃ المرأۃ عورۃ … ذکر الإمام أبو العباس القرطبي في کتابہ في السماع: ولا یظن من لا فطنۃ عندہ أنا إذا قلنا صوت المرأۃ عورۃ، أنا نرید بذٰلک کلامہا؛ لأن ذٰلک لیس بصحیح، فإنا نجیز الکلام مع النساء للأجانب ومحاورتہن عند الحاجۃ إلی ذٰلک، ولا نجیز لہن رفع أصواتہن ولا تمطیطہا ولا تلیینہا وتقطیعہا، لما في ذٰلک من استمالۃ الرجال إلیہن وتحریک الشہوات منہم، ومن ہٰذا لم یجز أن تؤذن المرأۃ، قلت: ویشیر إلی تعبیر النوازل بالنغمۃ۔
المبسوط للسرخسي: (133/1)
وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالْأَذَانِ وَالْمَرْأَةُ مَمْنُوعَةٌ مِنْ ذَلِكَ لِخَوْفِ الْفِتْنَةِ، فَإِنْ صَلَّيْنَ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ جَازَتْ صَلَاتُهُنَّ مَعَ الْإِسَاءَةِ لِمُخَالَفَةِ السُّنَّةِ وَالتَّعَرُّضِ لِلْفِتْنَةِ.
غمز عيون البصائر: (383/3)
وصوتها عورة في قول في شرح المنية الأشبه أن صوتها ليس بعورة وإنما يؤدي إلى الفتنة وفي النوازل نغمة المرأة عورة وبنى عليه أن تعلمها القرآن من المرأة أحب إلي من تعلمها من الأعمى ولذا قال عليه الصلاة والسلام التسبيح للرجال والتصفيق للنساء فلا يجوز أن يسمعها الرجل كذا في الفتح۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی