سوال:
فریقین میں صلح کرانے کے لیے صریح جھوٹ بول کر صلح کرالی جائے تو کیا صلح کرانے والا گناہگار ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ جھوٹ بولنا سخت حرام اور گناہ کا کام ہے، لہذا صلح کرانے کی غرض سے بھی صریح جھوٹ بولنے کی شرعاً کوئی گنجائش نہیں ہے، البتہ اگر سچ بات کے ذریعے فریقین کے درمیان صلح کرانے کی کوئی صورت نہ بنتی ہو، تو ایسی صورت میں توریہ کرنے کی گنجائش ہے۔
توریہ سے مراد یہ ہے کہ صلح کرانے والا شخص دوران گفتگو کچھ ایسے ذو معنی الفاظ استعمال کرے کہ سننے والا کچھ معنی مراد لے اور کہنے والے کی نیت کچھ اور ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (427/6، ط: دار الفكر)
الكذب مباح لإحياء حقه ودفع الظلم عن نفسه والمراد التعريض لأن عين الكذب حرام قال: وهو الحق قال: {قتل الخراصون} [ الذاريات: 10]، الكل من المجتبى.
(قوله: قال): أي صاحب المجتبى قال عليه الصلاة والسلام: "كل كذب مكتوب لا محالة إلا ثلاثة؛ الرجل مع امراته أو ولده والرجل يصلح بين الناس والحرب فإن الحرب خدعة" قال الطحاوي وغيره: هو محمول على المعاريض؛ لأن عين الكذب حرام. قلت: وهو الحق قال: {قتل الخراصون} [ الذاريات: 10]، وقال عليه الصلاة والسلام: "الكذب مع الفجور وهما في النار" ولم يتعين عين الكذب للنجاة وتحصيل المرام اه...
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی