سوال:
تین بھائیوں نے والد کے انتقال کے بعد سوائے چار پلاٹ کے پوری جائیداد تقسیم کرلی تھی، ان چار پلاٹ کے بارے میں تینوں بھائیوں میں یہ طے ہوا تھا کہ جب تک والدہ حیات رہیں گی یہ پلاٹ اور اس کا کرایہ والدہ کا ہی رہے گا، والدہ کے انتقال کے بعد یہ چاروں پلاٹ جس بھائی نے والدہ کی خدمت کی ہوگی اور والدہ کو اپنے پاس رکھا ہوگا یہ چاروں پلاٹ اسی بھائی کے ہوں گے، اس تحریری معاہدہ کے بعد ایک نے والدہ کو اپنے پاس رکھ لیا اور ان کی خدمت کی اور ابھی بھی کر رہا ہے جبکہ دو بھائیوں کا انتقال ہوچکا ہے، اب ان کی والدہ چاہتی ہیں کہ یہ چاروں پلاٹ ان دونوں مرحومین بھائیوں کی اولاد کو دے دیئے جائیں تو کیا والدہ کا اس طرح کرنا صحیح ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر تمام بالغ ورثاء اور والدہ نے باہمی رضامندی سے جائیداد تقسیم کرکے باقی چار پلاٹ خدمت کرنے والے بھائی کے لیے مقرر کر دیئے تھے، تو اب یہ چاروں پلاٹ خدمت کرنے والے بیٹے کی ملکیت ہوں گے، لہذا والدہ کا مرحوم بیٹوں کے بچوں کو دینے کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشکاۃ المصابیح: (باب الغصب و العاریة، 254/1، ط: قدیمي)
"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".
بدائع الصنائع: (259/5، ط: دار الکتب العلمیة)
"وروي عن النبي عليه الصلاة والسلام أنه قال : { المسلمون عند شروطهم } فظاهره يقتضي لزوم الوفاء بكل شرط إلا ما خص بدليل ؛ لأنه يقتضي أن يكون كل مسلم عند شرطه... وهذا لأن الأصل أن تصرف الإنسان يقع على الوجه الذي أوقعه إذا كان أهلا للتصرف ، والمحل قابلا ، وله ولاية عليه."
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی