resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: حجیت حدیث اور واقعہ تأبیر النخل (تمہاری دنیا کا جو کام ہو اس کو تم جانو، البتہ اگر وہ تمہارے دین سے متعلق ہو تو اسے مجھ سے معلوم کیا کرو) حدیث کى تشریح (9858-No)

سوال: اس حدیث کی تحقیق فرمادیں کہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کچھ آوازیں سنیں تو پوچھا: یہ کیسی آواز ہے؟ لوگوں نے کہا: لوگ کھجور کے درختوں میں پیوند لگا رہے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: ایسا نہ کریں تو بہتر ہوگا، چنانچہ اس سال ان لوگوں نے پیوند نہیں لگایا تو کھجور خراب ہو گئی، لوگوں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہاری دنیا کا جو کام ہو اس کو تم جانو، البتہ اگر وہ تمہارے دین سے متعلق ہو تو اسے مجھ سے معلوم کیا کرو“ سنن ابن ماجة: (رقم الحدیث: 2471)

جواب: سوال میں مذکور حدیث کى تشریح سے پہلے چند بنیادى باتیں بطور تمہید سمجھنا ضرورى ہے:
پہلى بات:
جناب رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کى مقدس شخصیت کی دو مستقل حیثیتیں ہیں، آپ کی ایک حیثیت آپ کی شانِ نبوت ورسالت ہے اور دوسری حیثیت آپ کی شانِ بشریت وآدمیت ہے:
(الف) آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى ایک حیثیت جو شانِ رسالت ونبوت ہے، اس حیثیت سے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جو بھی خبر دیں گے وہ قطعی اور یقینی طور پر برحق اور وحى الہى ہوگى، اسی کے متعلق قرآن کریم میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے:
"وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۳﴾ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۴﴾".
ترجمہ:
اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے۔ یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے۔ (سورہ النجم: آیت نمبر: 3، 4)
لہذا جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنی شانِ نبوت کی حیثیت سے کوئی بات ارشاد فرمائیں، تو امت کے لیے بلا چون چرا آپ کے ان ارشادات کى مکمل اتباع واطاعت کرنا واجب ہوگا، اس کے انکار سے ایمان باقی نہیں رہتا ہے۔
(ب) آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى دوسری حیثیت آپ کی شانِ بشریت ہے، اس کے متعلق قرآن کریم کا ارشاد ہے:
"قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ". (سورۃ الكهف: آیت نمبر: 110)
ترجمہ:
کہہ دو کہ میں تو تم ہی جیسا ایک انسان ہوں (البتہ) مجھ پر یہ وحی آتی ہے۔
(سورہ الکہف :آیت نمبر : 110)
خود آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ...الخ"
(میں ایک بشر ہی ہوں، بھولتا ہوں جس طرح تم لوگ بھولتے ہو)۔ (مسند أحمد: 6/ 87، حدیث نمبر: 3602)
لہذا آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى شانِ بشریت کی حیثیت کا لازمى تقاضہ یہ ہے کہ آپ کے وہ ارشادات وفرمودات جو وحی الہى سے مؤید نہ ہوں اور کسى حکمِ الہى کى تفسیر کے طور پر ارشاد نہ فرمائے گئے ہوں، بلکہ ایک بشری تقاضے اور ذاتی خیال سے کوئی بات ارشاد فرمائی ہو، یا کوئى مشورہ دیا ہو، یا آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کسی معاملہ میں اپنی بشری حیثیت کے مطابق کوئی رائے قائم فرمائیں (جس کی توثیق منجانب اللہ نہیں ہوئی ہو)، تو ایسے ارشادات وحی الہٰی کے زمرے میں نہیں آئیں گے، ان پر عمل کرنے میں امت کو اس بات کی گنجائش ہوگی کہ اس بارے میں اپنی رائے پر عمل کر سکتی ہے۔ جیسا کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے مشہور واقعے سے یہ معلوم ہوتا ہے، وہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت بریرہ رضی اللّٰہ عنہا جو کہ ایک باندی تھیں اور غلامی کے زمانہ میں ان کا عقدِ نکاح حضرت مغیث رضی اللّٰہ عنہ سے ہوگیا تھا، بعد میں جب حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو آزادی ملی، تو شرعا انہیں یہ اختیار حاصل ہوگیا کہ اگر وہ چاہیں تو زمانہ غلامی کے نکاح کو فسخ کرسکتی ہیں، چنانچہ انہوں نے اپنے اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اپنے سابقہ شوہر سے علیحدگى اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا، تو ان کے شوہر حضرت مغیث رضی اللہ عنہ ان کے اس فیصلے پر بیحد پریشان ہوئے، رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان کی اس پریشان حالی کو دیکھا، تو حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کو باقى رکھنے کے متعلق گفتگو فرمائى، اس پر حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ آپ کا حکم ہے یا مشورہ؟ آپ نے فرمایا: "یہ میرا مشورہ اور سفارش ہے"، یہ سن کر حضرت بریرہ رضی اللّٰہ عنہا نے کہا اب مجھے اختیار ہے کہ میں آپ کے اس مشورے پر عمل کروں، یا نکاح کو اپنے ارادہ کے مطابق فسخ کردوں۔ (چنانچہ حضرت بریرہ رضی اللّٰہ عنہا نے نکاح کو ختم کر دیا تھا، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سفارش پر بصد احترام عمل نہیں کیا)۔
(مسند احمد: حدیث نمبر: 1844)
اس واقعے سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں: ایک یہ کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس بات کا فرق معلوم تھا کہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا حکم وحی الہٰی ہے اور آپ کا مشورہ وحی الہٰی نہیں ہے، بلکہ وہ آپ کى شانِ بشریت کے مطابق آپ کى ایک رائے ہے، جو کہ وحى الہى کى طرح واجب الاطاعت نہیں ہے،لہذا ہمیں اپنی رائے پر عمل کرنے کی گنجائش ہے، دوسرا یہ کہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت بریرہ رضی اللّٰہ عنہا کا آپ کے مشورے کے بجائے اپنی رائے پر عمل کرنے سے ان پر کوئی نکیر بھی نہیں فرمائی ہے، جس سے یہ معلوم ہوا کہ خود آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس مشورے کو وحى الہى کا درجہ نہیں دیا، بلکہ آپ نے گنجائش عطا فرمائى ہے۔
آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى شخصیت کى مذکورہ بالا ان دو حیثیتوں کے متعلق تفصیل علامہ عینى رحمہ اللہ متوفی 855ھ کى کتاب "نخب الافکار "ج 10 ص 475 میں یوں بیان کى گئى ہے:
"اس بارے میں تحقیق یہ ہے کہ نبی علیہ الصلاة والسلام کی دو حالتیں ہیں: ایک حالت مطلق بشریت کی ہے، آپ اور سارے انسان اس میں یکساں ہیں، اس کی دلیل یہ فرمان ہے: "أنا بشر مثلکم" (میں تمہاری طرح کا بشر ہوں) کیونکہ آپ جنس بشر سے ہیں، غیر بشر کی جنس سے نہیں ہیں، لہٰذا اس حالتِ بشری کے تحت آپ کبھی ایک چیز کا گمان کرتے ہیں، جبکہ واقعہ اس کے برخلاف ہوتا ہے، اس لیے کہ ظن خطاء بھی کرتا ہے اور درستگی کو بھی پہنچتا ہے جیسے تمام انسانوں کے ظن میں ہوتا ہے۔ اور دوسری حالت جو اس پہلی حالت سے زائد ہے، اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کی جانب سے نبی، رسول اور اپنے قول وفعل میں معصوم ہونا ہے بایں حیثیت کہ آپ نے جب کوئی بات فرمائی یا کوئی کام کیا، تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حق وصواب ہی ہے اور یہ خلاف واقع نہیں ہوگا، کیونکہ یہ (قول وفعل) اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے، اسی بناء پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَیٰ اِن ہُوَ اِلّا وَحْیٌ یُوحَیٰ" (اور اللہ کا رسول اپنی خواہش سے نہیں بولتا، یہ تو بس وحی ہی ہے جو ان کو کی گئی ہے)۔
البتہ وحی کی دو قسمیں ہیں: ایک متلو اور یہ قرآن ہے، اور دوسری وحی غیر متلو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال ہیں"۔
دوسرى بات:
رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کى شانِ نبوت کى حیثیت سے آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ کو شریعت کى اصطلاح میں حدیث اور سنت کہا جاتا ہے اور اسلامى قانون کا قرآن کریم کے بعد دوسرا اہم ترین ماخذ، رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کى حدیث اور سنت ہے اور رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کى حدیث اور سنت کو ایسى حجیت، سند اور اتھارٹى حاصل ہے، کہ جس کا ماننا ایمان کى اساس ہے اور اس کے انکار سے ایمان باقى نہیں رہتا ہے۔
نیز نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کى حدیث و سنت کا صحیح مقام و مرتبہ آپ کی ذات مبارک کے مقام اور مرتبے کو سمجھے بغیر ممکن نہیں ہے، چنانچہ قرآن کریم میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مقام اور مرتبہ متعین فرمایا گیا ہے، وہ اس آیت سے بخوبی واضح ہوتا ہے:
"لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ". (سورة آل عمران: الآية: 164)
ترجمہ:
حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا، جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔
مذکورہ بالا آیت میں آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى بعثت کے چار مقاصد بیان کیے گئے ہیں:
١) کتاب اللہ (قرآن کریم ) کى آیات پڑھ کر سنانا۔
٢) کتاب اللہ کى تعلیم فرمانا۔
٣) حکمت کى تعلیم دینا۔
٤) ظاہر وباطن کی صفائی اور تزکیہ وتربیت کرنا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فرائض و مقاصد کی انجام دہی کے لیے یہ لازم تھا کہ آپ کی تعلیمات خواہ وہ زبانی ہوں یا عملی، آپ کے ماننے والوں کے لیے واجب الاطاعت قرار دی جائیں، کیوں کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کى زندگى ہى "اسوہ حسنہ" (بہترین نمونہ) ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں جا بجا آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى اطاعت و اتباعِ کامل پر زور دیا گیا ہے۔ اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم کى اطاعت کو اللہ تعالى کى اطاعت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، ذیل کى آیات ملاحظہ فرمائیں:
١) {قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ} (سورۃ آل عمران: آیت نمبر: 32)
ترجمہ:
کہہ دو کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، پھر بھی اگر منہ موڑو گے تو اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔ (سورہ آل عمران: آیت نمبر 32)
٢) {وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ}
[آل عمران: 132]
ترجمہ:
اور اللہ اور رسول کی بات مانو، تاکہ تم سے رحمت کا برتاؤ کیا جائے۔ (سورہ آل عمران: آیت نمبر 132)
٣) {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ}
[النساء: 59]
ترجمہ:
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور تم میں سے جو لوگ صاحب اختیار ہوں ان کی بھی۔
(سورہ النسآء: آیت نمبر 59)
٤) {مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا}
[النساء: 80]
ترجمہ:
جو رسول کی اطاعت کرے، اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جو (اطاعت سے) منہ پھیر لے، تو (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجا (کہ تمہیں ان کے عمل کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے)۔ (سورہ النسآء: آیت نمبر: 80)
تیسرى بات:
جب رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کى اطاعت جزءِ ایمان ہے، آپ کى احادیث قانون اسلامى کا اہم ترین دوسرا بڑا ماخذ ہیں ، تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم کى احادیث اور آپ کى ہمہ جہت مبارک تعلیمات وارشادات کى محققینِ علمِ حدیث نے مختلف اقسام بیان کى ہیں، ذیل میں ہم احادیث نبویہ على صاحبہاالصلاۃ والسلام کى چند بنیادى اقسام کا ذکر کریں گے، جن کے سمجھنے سے اس سوال کے جواب کو سمجھنے میں مدد ملے گى، وہ اقسام یہ ہیں:
آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والى وحى الہى کى ابتدائى طور پر دو قسمیں ہیں: (1) وحی متلو اور (2) وحی غیر متلو۔
وحی متلو: جس کى تلاوت نماز میں کى جاتى ہواور نماز کے باہر اس کى تلاوت کا حکم دیا گیا ہو ، اس وحى کا نام ہے قرآن کریم۔
وحى غیر متلو: جس کى تلاوت نماز میں نہ کى جاتى ہو اور نماز سے باہر اس کى تلاوت کا حکم بھى نہ ہو، یہ وہ وحى ہے جو کہ احادیث رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کى صورت میں امت کے پاس محفوظ ہے۔
وحى متلو کا مضمون اور الفاظ اللہ تعالى کى طرف سے نازل شدہ ہوتے ہیں، جبکہ وحى غیر متلو کا صرف مضمون اللہ تعالى کى طرف سے نازل شدہ ہوتا ہے، اس مضمون کو الفاظ کى صورت میں آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے ہیں۔
پھر وحى غیر متلو کى درج ذیل اقسام ہیں:
١) حدیث قدسى:
آپ صلى اللہ علیہ وسلم کى وہ حدیث جس کا مفصل مضمون اللہ تعالى کى طرف سے نازل ہوتا ہے، رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم اس مضمون کو اپنے الفاظ میں تعبیر فرماتے ہیں۔
٢) تمام احادیث نبویہ على صاحبہ الصلاۃ والسلام:
آپ صلى اللہ علیہ وسلم کى وہ حدیث جس کا مضمون اللہ تعالى کى طرف سے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو سمجھا دیا جاتا ہے، پھر آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم اس مضمون کو حسب موقع، امت کو تعلیم فرماتے رہتے ہیں۔
حدیث نبوى على صاحبہ الصلاۃ والسلام کى مزید دو اقسام ہیں:
قسم اول: وہ احادیث جو حکم شرعى کے طورپر وارد ہوئى ہیں، اس میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرضِ منصبى اللہ تعالى کى طرف سے ان احکامات شرعیہ کى پیغام رسانى کا ہوتا ہے، ان کى مندرجہ ذیل صورتیں ہیں:
١) معاد وآخرت سے متعلق احادیث، جو امورِ آخرت کے بارے میں آپ نے ارشاد فرمائى ہیں۔
٢) تمام احکامات شرعیہ: عبادات وطاعات، حلال وحرام، پاکى نا پاکى، گناہ وثواب اور تمام جائز ونا جائز کاموں کے متعلق اوامر ونواہی وغیرہ کى تفصیلات۔
فائدہ: مختلف احکام شریعت مثلا: فرض، واجب، سنت، مستحب، حلال، حرام، جائز ونا جائز، مکروہ تحریمى، مکروہ تنزیہى اور مباح وغیرہ کس آیت قرآنى اور کس حدیث نبوى سے ثابت ہوتے ہیں؟ اس حدیث کا درجہ کیا ہے؟ اس کى تفصیل علم ِاصولِ حدیث اور علمِ اصول ِفقہ میں موجود ہیں، یہاں اس کے بیان کا موقع نہیں ہے۔
٣) عام حکمت ومصلحت کى باتیں، اخلاق حسنہ کا بیان اور اخلاق سیئہ کى مذمت وغیرہ، جو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے مختلف مناسبتوں اور مواقع میں ارشاد فرمائى ہیں۔
٤) اعمال صالحہ کے فضائل ومناقب کے متعلق آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ارشادات۔
قسم دوم: وہ احادیث جو دنیوى امور میں آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى ذاتى رائے، مشورہ اور تجویز کے طور پر وارد ہوئى ہیں، ان احادیث کا تعلق من جانب اللہ پیغام رسانى سے نہیں ہوتا ہے، بلکہ بتقاضائے بشریت آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائى ہوتى ہیں، جیسے کھجوروں کى پیوند کارى سے متعلق آپ کا ارشاد فرمانا، (جس کى تفصیل حدیث "تابیر النخل " کى تشریح میں آئے گی) اور وہ حدیث جس میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا سے حضرت مغیث رضی اللہ عنہ کے متعلق سفارش فرمائى ہے، اس قسم کى احادیث درج ذیل صورتوں پر مشتمل ہوتى ہیں:
١) علاج معالجہ اور طب سے متعلق آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ارشادات۔
٢) امور عادیہ کے متعلق آپ کے ارشادات، یعنى وہ روایات جن میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ایسے کاموں کا تذکرہ ہے، جو آپ نے عادت کے طور پر سر انجام دیے نہ کہ عبادت کے طور پر، جیسے چمڑے کے دسترخوان پر کھانا، لکڑی کے پیالے میں پینا وغیرہ۔
٣) مروجہ عام باتیں، جو سبھى لوگ کیا کرتے ہیں۔
٤) ہنگامى ارشادات، جو کسى خاص موقع کے لیے بطور حکمتِ عملى اختیار فرمائے ہوں، جیسے میدان جہاد میں لشکر کى تنظیم اور کوئى "شعار" (کورڈ ورڈ) مقرر کرنا وغیرہ۔
٥) کوئى خاص حکم اور فیصلہ، جو کسى خاص موقع کى مناسبت سے اختیار فرمایا ہو۔
آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ان ارشاداتِ عالیہ کى حیثیت وحى الہى کى نہیں ہوتى ہے، لہذا اس میں اگر کوئى عمل نہ کرے تو کوئى نکیر نہیں کى جائے گى اور اگر کوئى اپنے جذبہ عشق نبوى صلى اللہ علیہ وسلم سے سرشار ہو کر ان ارشادات پر عمل کرتا ہے، تو یقینا یہ بہت فضیلت کى بات ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسی عشق نبوی سے سرشار تھے اور بغیر حِیَل وحجت کے آپ کے ہر ارشادِ عالی پر دل وجان سے عمل پیرا تھے۔
چوتھى بات:
بعض لوگوں کو یہ سنگین مغالطہ ہوتا ہے کہ دیگر تمام مذاہب کی طرح اسلام بھی کچھ مذہبی عقائد، عبادات اور رسومات کے مجموعے کا نام ہے اور بس۔ لہذا اسلام کا روزمرہ انسانی زندگی کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے مسلمان ہونے کے لیے اتنى بات کافى ہے کہ چند متعین عقائد ونظریات کو مان لیا جائے اور بعض مخصوص عبادات ورسومات پر عمل کر لیا جائے، تو اس کے بعد ہر شخص آزاد ہےکہ وہ جس طرح چاہے اپنی زندگی گزارے، اس کے طرز زندگی سے اسلام کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔
یہ ایک سنگین مغالطہ ہے جو کہ مغرب زدہ ذہنیت کا حامل ہے، کیونکہ مغرب میں عیسائیت اور یہودیت کو چرچ اور کلیسا تک محدود کر دیا گیا ہے، عیسایت اور یہودیت کا نظام زندگی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے، اسی طرح اسلام بھی مسجد تک محدود ہے، اس کا نظامِ زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے برعکس اسلام ایک مکمل نظام، مکمل دستور اور مکمل آئین برائے حیات انسانى ہے، جو اپنے ہمہ جہت وسیع تر دائرہ تعلیمات میں انسانى زندگى کے تمام شعبوں کو سمیٹے ہوئے ہے، اسلام فرد سے لے کر قوم تک، ایک خاندان سے لے کر ریاست و سلطنت تک اور پھر پوری دنیا کے تمام فکری، سماجی، تہذیبی، تمدنی، اخلاقى، قانونی، سیاسی، دیوانی، فوجداری، معاشی اور معاشرتی مسائل کے تمام پہلوؤں کو پورى پورى روشنى فراہم کرتا ہے، کسی بھى پہلو کو تشنہ باقی نہیں رکھتا ہے، کیوں کہ اس دینِ متین کی نسبت جس رسولِ اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کى طرف ہے، ان کى دعوت اور تعلیم آفاقى ہے، ان کی زندگی تمام شعبہائے زندگی کی جامع ہے، ان کا طرز عمل کھلى کتاب ہے، ان کا طریقہ زندگى "اسوہ حسنہ" (بہترین نمونہ) اور آئین حیات انسانى ہے، قرآن کریم نے اس زندگی کی طرف یوں دعوت دی ہے:
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ} [الأنفال: 24]
ترجمہ:
اے ایمان والو! اللہ اور رسول کی دعوت قبول کرو، جب رسول تمہیں اس بات کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے۔ (سورةالانفال: آیت نمبر: 24)
ذرا غور فرمائیے! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم لوگوں کو زندگی کی طرف بلاتے ہیں، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ زندگی کے معاملات اللہ اور اس کے رسول کے فیصلوں سے بالکل غیر متعلق ہوں، زندگی کے مسائل اور معاملات کا حل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم پیش نہ فرمائیں؟!
اس لیے وہ شخص جس نے قرآن کریم کا مطالعہ کیا ہو، اس مغالطے میں کبھی نہیں آئے گا کہ اسلام اور قرآن کریم کی تعلیمات محض چند عبادات اور رسومات ہیں اور بس۔ بلکہ اس کا یہ ایمان ہوگا کہ قرآن کریم خرید و فروخت ،قرض کے لین دین ،گروی رکھنے ،شراکت داری، تعزیری قوانین، وراثت کے تعلقات، سیاسی معاملات، جنگ و امن کے مسائل اور بین الاقوامی تعلقات جیسے بیسیوں موضوعات کا مکمل احاطہ کرتا ہے، ان شعبوں سے متعلق ہر پہلو کے خاص احکامات دیتا ہے، اگر اسلامی تعلیمات محض عقائد اور رسومات تک محدود ہوتیں، تو ان احکامات و قوانین کی قرآن کریم میں موجودگی کی کوئی وجہ نہیں ہے، مزید یہ کہ جس طرح قرآن کریم میں ان تمام معاملات کے متعلق ہدایات موجود ہیں، بالکل اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں بھی تمام شعبہائے زندگى کے مسائل پر مکمل تفصیل ہزاروں احادیث میں موجود ہیں، جو اس بات کى واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کى حدیث وسنت کو تمام انسانى معاملات میں قانونى اور آئینى حیثیت حاصل ہے، جس کا انکار اسلام کے بنیادى عقیدے کا انکار ہے۔
واقعہ "تأبیر النخل" (کھجورکے درخت کى پیوندکارى سے متعلق واقعہ) کى تشریح:
منکرینِ حدیث کا پھیلایا ہوا ایک بے بنیاد نظریہ ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کى احادیث کا دنیوى معاملات سے کوئى تعلق نہیں ہے، اس کى تائید میں وہ حضرات حدیث "تأبیر النخل" (کھجور کے درخت میں قلم لگانے کے واقعے والى حدیث) بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اس حدیث میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا ہے: "أنتم أعلم بأمور دنياكم" (تم اپنے دنیا کے معاملات کو بہتر جانتے ہو)، لہذا دنیوى معاملات میں رسولِ اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کى احادیث کى کوئى قانونى حیثیت نہیں ہے (معاذ اللہ)، عجیب بات یہ ہے کہ ان حضرات کو پورے ذخیرۂ احادیث میں اس مضمون کی صرف ایک حدیث ہی مل سکی ہے، جسے انہوں نے سیاق وسباق سے کاٹ کر اور اس حدیث کے سارے پس منظر کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مطلب کا مفہوم کشید کرنے کى نا کام کوشش کى ہے، ذیل میں اس حدیث کى مکمل تفصیل وتشریح پیش کى جاتى ہے، جس سے اندازہ ہوگا کہ اس حدیث کو اس واقعی پسِ منظر سے ہٹا کر اس کے مفہوم ومقصد کو سمجھنے میں کس قدر غلط فہمى بلکہ کج فہمى سے کام لیا گیا ہے۔
اس حدیث کو چار صحابہ کرام رضى اللہ عنہم اجمعین نے روایت کیا ہے: (۱) حضرت طلحہ بن عبیداللہ، (۲) حضرت رافع بن خدیج، (۳) حضرت ام الموٴمنین عائشہ صدیقہ، (۴) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہم اجمعین۔
ان تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کى بیان کردہ روایات کو یکجا کرنے سے اس واقعے کى جو تفصیلات سامنے آتى ہیں، اس سے یہ بات واضح ہوتى ہے کہ اس حدیث میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا مقصد دینی و دنیوی امور میں فرق بتلانا تھا ہی نہیں، بلکہ اس حدیث میں جس بات کو نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بطورِ خاص ذکر فرمایا ہے، وہ یہ کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث کے ذریعے اپنی شانِ بشریت اور شانِ رسالت کا فرق بتایا، ذیل کى تفصیل سے مزید وضاحت ہوگى۔
١) حدیث طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ:
حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ میرا گزر ایک قوم کے پاس سے ہوا، جو کھجور کے درختوں کی چوٹیوں پر تھے، آپ نے دریافت فرمایا: "یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟" لوگوں نے عرض کیا: یہ لوگ قلم لگارہے ہیں (یعنی نر درخت کا شگوفہ مادہ درخت کے شگوفے میں ڈال رہے ہیں، جس سے مادہ درخت اثر پذیر ہوتا ہے)، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں گمان نہیں کرتا کہ یہ عمل کچھ مفید ہوگا"۔ راوی حدیث حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس گمان کی قلم لگانے والوں کو خبر دی گئی، تو انہوں نے (کمال اطاعت وفرمانبردارى کا مظاہرہ کرتے ہوئے) اس کام کو فورا ترک کر دیا، (جس کے سبب اس سال کھجور کا پھل کمزور آیا)، جس کی اطلاع آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو دی گئی، تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اگر یہ عمل ان کے لیے نفع بخش ہے تو اسے کریں، یقینا میں نے تو بربنائے ظن ہی کہا تھا، لہٰذا تم لوگ اس ظن کی بناء پر مجھے معاف رکھو (یہ آپ کے اخلاقِ کریمانہ کا مظہر ہے، ورنہ ان صحابہ کرام کو اس پر ادنى شکایت بھى نہیں تھى)، لیکن جب میں تم سے منجانب اللہ کوئی بات کہوں، تو اس پر ہی عمل کرو، بیشک مجھ سے ہرگز اللہ پر غلط بیانی نہیں ہوسکتی (یعنی جو منجانب اللہ کہوں گا وہ برحق ہوگا)۔ (صحیح مسلم: حدیث نمبر: 2361)
٢) حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ:
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے، تو اہلِ مدینہ کھجور کے درخت میں پیوندکاری کیا کرتے تھے، یعنی "تلقیح" کرتے تھے، آپ نے پوچھا: "تم کیا کررہے ہو؟" انھوں نے عرض کیا کہ (زمانہ قدیم سے) ہم اس عمل کو کرتے آرہے ہیں، آپ نے فرمایا: "ہوسکتا ہے کہ اگر تم نہ کرو تو بہتر ہو"، انھوں نے اس عمل کو فورا ترک کردیا، تو پھل (قبل ازوقت) گرگئے، یا کہا پھل کم آئے، حدیث روایت کرنے والے کہتے ہیں: پھلوں کی اس خرابی کا ذکر لوگوں نے آپ سے کیا ،تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انّما انا بشر" میں بشرہی ہوں (ہاں بحیثیت رسول) جب میں تمہیں حکم دوں، تو اس پر (لازماً) عمل کرو اور جب کسی امر دنیا کے بارے میں اپنے ذاتی ظن و رائے سے حکم دوں، تو میں ایک بشر ہوں (یعنی) دوسرے بشر کی طرح میرے ظن میں بھی خطاء یا صواب کا وقوع ہوسکتا ہے۔ (صحیح مسلم: حدیث نمبر: 2362)
تشریح:
حضرت طلحہ اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما کی مذکورہ بالا دونوں روایات سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتى ہیں:
(الف) ان دونوں احادیث میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے کھجور کى پیوند کارى سے متعلق جو کچھ بھی فرمایا، اس کے متعلق آپ نے خود وضاحت فرمائى کہ وہ میرى ایک رائے تھى، وہ وحى الہى کی طرح کا حکم نہیں تھا، لہذا اس میں تمہیں یہ اختیار تھا کہ تم اپنے قدیم تجربہ پر عمل کر سکتے تھے، نیز آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ساتھ یہ بھى صراحت فرما دى کہ جب میں اللہ تعالى کى طرف سے کوئى بات بیان کروں، تو وہ بر حق اور ہر حال میں واجب الاطاعت ہو گی۔
(ب) اس واقعہ میں دراصل ان صحابہ کرام رضى اللہ عنہم اجمعین کو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ارشاد کو سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی، انہوں نے اپنے جذبہ اتباع کامل کے مطابق آپ کے بشری گمان کو وحی الہى کا درجہ دے کر اپنے سابقہ تجربہ کو پس پشت ڈال دیا، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ متوفى 728ھ نے "مجموع الفتاوى" 12/18 میں فرمایا ہے: "نبى اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے انہیں پیوند کارى سے ممانعت نہیں فرمائى تھى، بلکہ اپنى رائے کا اظہار فرمایا تھا، یہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیهم اجمعین سے آپ کے اس ارشاد کو سمجھنے میں غلطى ہوئى ہے، کہ انہوں نے آپ کے ظن اور رائے کو (وحى الہى کى طرح کى ) ممانعت سمجھا (یہی وجہ ہے کہ پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بعد میں یہ کہہ کر ان کے اس فہم کى تصحیح فرما دى کہ "وہ تو میرا گمان تھا"، میں جب من جانب اللہ کوئى بات کہوں تو اس پر عمل لازم ہے)۔
(ج) اس حدیث میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے الفاظ دنیا ودین کے امور سے متعلق فرق بتلانے کے لیے نہیں ہیں، بلکہ آپ نے اپنے ارشادات کى دو قسموں کو سمجھایا ہے، جیسا کہ پہلى بات میں اس کى تفصیل گزر چکى ہے، کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کى دو مستقل حیثیتیں ہیں، ایک حیثیت آپ کى شانِ رسالت اور دوسرى حیثیت آپ کى شانِ ِبشریت ہے، چنانچہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنى اس حدیث کے ذریعے اپنى دونوں حیثیتوں کى وضاحت فرمائى ہے، اپنى شانِ بشریت کے متعلق فرمایا ہے: کھجور کى پیوندکارى سے متعلق میرا ذاتى خیال تھا، ”انّما انا بشر“ (میں بشر ہی ہوں) لہذا میرا یہ خیال وحى الہى کى طرح واجب الاتباع نہیں تھا، جبکہ اپنى شانِ رسالت کے متعلق صاف لفظوں میں یہ فرمایا ہے: "میں بحیثیتِ رسول جب تمہیں حکم دوں تو اس پر (لازماً) عمل کرو"، اس میں یہ بات بھى شامل ہے کہ اگر رسولِ اکرم صلى اللہ علیہ وسلم بحیثیت رسول کسى دنیوى معاملے کے متعلق من جانب اللہ کوئى حکم ارشاد فرمائیں گے، تو وہ بھى وحى الہى کى طرح واجب الاتباع ہوگا، اس سے روگردانى کرنا گناہ اور اس کے انکار سے ایمان باقى نہیں رہے گا۔
(د) اس حدیث سے یہ بات بھى سمجھ میں آتى ہے کہ رسولِ اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے جو اپنے "ظن" کى وضاحت فرمائى ہے، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے آپ کے پیشِ نظر ممانعت کرنا نہیں تھا، کیوں کہ اگر ممانعت مقصود ہوتى تو "ظن" کے الفاظ استعمال نہ فرماتے بلکہ یقینى اور قطعى الفاظ ارشاد فرماتے، کیوں کہ "ظن" میں غلطى اور درستگى دونوں باتوں کااحتمال ہوتا ہے، جبکہ قطعى اور یقینى الفاظ میں غلطى کا امکان نہیں ہوتا ہے۔ورنہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کسى کام کے ترک کرنے کو مفید بتلائیں اور بعد میں اس کے خلاف ہو جائے کہ اس کام کا کرنا مفید تھا، لہذا اگر آپ نے یہ بات بطورِ وحى کے ارشاد فرمائى ہوتى، تو قطعیت کے ساتھ یقینی الفاظ میں فرمائی ہوتی، جس میں آپ کے ارشاد کے خلاف ہونے کا امکان نہیں تھا، اس لیے گویا کہ یہ بات ثابت ہوئی کہ اس حدیث میں آپ نے اپنى شانِ بشریت کے مطابق اپنى رائے اور گمان کا اظہار فرمایا ہے، جس میں خلاف واقع امر کا بہرحال امکان موجود تھا، جیسا کہ بعد میں وہ واقع بھى ہوا۔
٣) حدیث عائشہ وانس بن مالک رضى اللہ عنہما:
حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسی جماعت پر ہوا جو کھجور کے درخت میں پیوند لگا رہی تھی، تو آپ نے فرمایا اگر تم لوگ یہ کام نہ کرو تو بہتر ہو، راوی کا بیان ہے (کہ انہوں نے اسے ترک کردیا) جس کے نتیجے میں پھل ردّی آیا، دوبارہ آپ ان کے پاس سے گزرے تو پوچھا تمہارے درختوں (کے پھل) کو کیا ہوگیا؟ انھوں نے عرض کیا آپ کے فرمان کے مطابق ہم نے پیوند کارى ترک کر دى تھى، اس کى وجہ سے پھل ردى آیا ہے، اس پر آپ نے فرمایا تم اپنے امر دنیا (یعنی باغبانی) کو زیادہ جانتے ہو۔
تشریح:
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےاس حدیث میں "انتم اعلم بامر دنیاکم" (تم اپنے دنیوى معاملات کو بہتر جانتے ہو) کو مستقل طور پر نہیں فرمایا ہے، بلکہ جس وقت یہ فرمایا تھا، تو اسی کے ساتھ یہ بھی صراحت فرما دی تھی کہ میں نے "تأبیر" کے بارے میں جو کچھ کہا تھا وہ محض اپنے "ظن" کی بنیاد پر کہا تھا، جیسا کہ ما قبل میں حدیث طلحہ ورافع رضی اللہ عنہما میں اس کو صراحت سے بیان کیا گیا ہے، لہذا حدیث عائشہ وانس رضی اللہ عنہما میں اس پس منظر کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا ہے، اس پس منظر کے ساتھ اس حدیث کا مفہوم یہ ہوگا کہ میں جب امر دنیاوی کے بارے میں اپنے ظن وگمان سے کوئی بات کہوں اور تمہارے پاس اس امر دنیا کے متعلق علم یقینی ہو، تو تم میرے ظن کے بجائے اپنے علم ویقین پر عمل کرو۔
٤) حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا:
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آوازیں سنیں، تو آپ نے فرمایا: "یہ کیسی آوازیں ہیں؟" لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ لوگ کھجور کے درخت میں قلم لگا رہے ہیں، پس آپ نے (بربنائے ظن) فرمایا: "اگر (یہ عمل) نہ کریں تو مناسب ہے"، چنانچہ اس سال لوگوں نے "تابیر" نہیں کی، تو پھل ردی ہوگئے، پھلوں کی اس کیفیت کا ذکر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: "اگر کوئی کام تمہاری دنیا کا ہو، تو وہ تمہارے علم کے سپرد ہے اور جب کوئی امر دینی ہوگا، تو وہ میری طرف ہی محول ہوگا"۔
تشریح:
اس حدیث میں دنیا کے معاملات میں صحابہ کرام کو اپنے تجربات پر عمل کرنے کی جو اجازت دى گئى ہے، اس سلسلے میں شریعت کا مزاج یہ ہے کہ روزمرہ کے معاملات میں جہاں شریعت نے براہ راست حکم جاری نہیں کیا، وہاں لوگوں کے لئے ایک وسیع میدان چھوڑ دیا گیا ہے، انہیں اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنی ضروریات اور مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے علم اور تجربے کی بنیاد پر معاملات چلائیں، کسی بنجر اور بے نمو زمین کو کیسے زرخیز بنایا جا سکتا ہے؟ پودوں کی دیکھ بھال کس طرح کرنی چاہیے؟ دفاع کے مقاصد میں کون سے ہتھیار کار آمد ہیں؟ سواری کے لیے کس قسم کے گھوڑے زیادہ موزوں ہوتے ہیں؟ کسی مخصوص بیماری کے لیے کون سی دوا زیادہ زودِ اثر ہے؟ یہ اور اس قسم کے تمام معاملات جو کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں، ان کے بارے میں شریعت نے کوئی مخصوص حکم نہیں دیا ہے، تو اس طرح کے معاملات کو انسانی تجسس، عقل وتدبر اور تجربات پر چھوڑ دیا گیا ہے، جو کہ ایسے مسائل کے حل کے لیے کافی ہے، البتہ ان معاملات سے متعلق وہ باتیں جو جائز اور ناجائز، حلال و حرام کے زمرے میں آتی ہوں، اس کے احکامات ضرور بیان کیے گئے ہیں۔ چنانچہ وہ دنیاوی معاملات جہاں قرآن مجید اور سنت نے مخصوص اور متعین اصول وضع کیے ہیں یا کوئی واضح حکم دیا ہے، وہ "انتم اعلم بامور دنیاکم" کے زمرے میں نہیں آئیں گے۔ اس لیے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے درختوں کے معاملے کو ایک کھلا میدان قرار دیا وہیں اس کے متصل بعد یہ بھی ارشاد فرمایا: "لیکن جب میں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بات بتاؤں تو اس پر ضرور عمل کرو". مثلاً خرید وفروخت، لین دین، اور قرض کے معاملات، ربا اور سود وغیرہ کے احکام، کرایہ دارى کے معاملات ، تجارت، شراکت دارى ، صنعت وحرفت اور دیگر جائز و ناجائز پیشے وغیرہ ، اسى طرح دیوانی و فوجداری کے مسائل، عائلی، معاشرتی اور اجتماعی زندگی کے معاملات، کھانے پینے، پہننے وغیرہ کے آداب وطریقے وغیرہ، یہ سب وہ امور ہیں جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں کثرت سے ہدایات واحکام (اوامر ومناہی) وارد ہوئے ہیں، یہ سب درحقیقت دینی امور ہی ہیں کیونکہ جن امور سے متعلق شریعت کا کوئی امر وحکم ہوتا ہے، انہیں کو دینی کام سمجھا اور کہا جاتا ہے۔
خلاصہ بحث:
مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات پوری طرح واضح ہوتی ہے کہ نبى اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کى حدیث کو قانون اسلامى میں بنیادى مقام حاصل ہے، آپ کے وہ تمام ارشادات جو آپ نے بطور پیغمبرانہ حیثیت کے ارشاد فرمائے ہیں، وہ سب دینى امور ہیں، خواہ ان کا تعلق دنیا کے معاملات سے ہی کیوں نہ ہو، اور جن معاملات سے متعلق آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے بطور بشری تقاضہ کے کوئى بات ارشاد فرمائى ہے، تو اس میں یہ گنجائش ہے کہ کوئى شخص اپنے تجربے کے مطابق عمل کرے۔
سوال میں مذکور حدیث اور اس کى تشریحات سے یہ بات بخوبی واضح ہوتى ہے کہ اس میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے درختوں کی پیوند کاری کے خلاف کوئی حتمی اور قطعی ممانعت نہیں دی تھی، یہاں جائز اور ناجائز کا کوئی سوال نہیں تھا، جو کچھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ نہ تو کوئی حکم تھا، نہ کوئی قانون اور مذہبی ممانعت تھی، وہ تو حقیقتا کوئی سوچا سمجھا تبصرہ بھی نہ تھا، بلکہ وہ تو ایک سرسری انداز میں کہا ہوا ایک تبصرہ تھا، جو ایک عمومی اور فوری نوعیت کے اندازے پر مبنی تھا، جیسا کہ آپ نے وضاحت فرما دی "وہ تو محض میرا ایک گمان ہی تھا، کوئی حکم الہی نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ ان لوگوں سے نہیں فرمایا، جو یہ عمل کر رہے تھے اور نہ ہی یہ پیغام ان تک پہنچانے کا حکم دیا، بلکہ ان کو دیگر لوگوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تبصرے کا علم ہوا، تو اگرچہ یہ تبصرہ باقاعدہ ممانعت کا حکم نہیں رکھتا تھا، لیکن اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاک نفس اصحاب ہر بات میں آپ کا دیوانہ وار اتباع کرنے کے عادی تھے، اور صرف کسی قانونی پابندی کی وجہ سے نہیں، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غیر معمولی اور بے پناہ الفت و تعلق کی بنا پر آپ کی پیروی کیا کرتے تھے، چنانچہ انہوں نے یہ عمل اپنی قدیمی تجربے کے بر خلاف بالکل ترک کر دیا، لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوا کہ انہوں نے اس ارشاد کی بنا پر یہ عمل چھوڑ دیا ہے، تو آپ نے غلط فہمی دور کرنے کے لئے بات کی وضاحت فرما دی، اس وضاحت کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تمام حتمی اور قطعی بیانات واجب التعمیل ہیں، کیونکہ وہ آپ نے پیغمبرانہ حیثیت میں اللہ تعالی ہی کی جانب سے ارشاد فرمائے ہیں، اور جہاں تک آپ کے کسی ایسے لفظ کا تعلق ہے جو آپ نے کسی حتمی اور قطعی بیان کے طور پر نہیں، بلکہ محض ایک بشری گمان کے طور پر ارشاد فرمایا ہو، اگرچہ وہ بھی پوری تعظیم کا مستحق ہے ، لیکن اس کو شریعت کا حکم قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (آل عمران، الایة: 32)
قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَo

و قوله تعالي: (آل عمران، الایة: 132)
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَo

و قوله تعالي: (النساء، الایة: 59)
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ....الخ

و قوله تعالي: (النساء، الایة: 80)
مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًاo

١) حديث طلحة بن عبيد الله رضي الله عنه:
صحيح مسلم: (كتاب الفضائل، باب وجوب امتثال ما قاله شرعا، رقم الحديث: 2361، 1835/4، دار إحياء التراث العربي)

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِيُّ، وَأَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ، وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ. وَهَذَا حَدِيثُ قُتَيْبَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: مَرَرْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَوْمٍ عَلَى رُءُوسِ النَّخْلِ، فَقَالَ: «مَا يَصْنَعُ هَؤُلَاءِ؟» فَقَالُوا: يُلَقِّحُونَهُ، يَجْعَلُونَ الذَّكَرَ فِي الْأُنْثَى فَيَلْقَحُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَظُنُّ يُغْنِي ذَلِكَ شَيْئًا» قَالَ فَأُخْبِرُوا بِذَلِكَ فَتَرَكُوهُ، فَأُخْبِرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ فَقَالَ: «إِنْ كَانَ يَنْفَعُهُمْ ذَلِكَ فَلْيَصْنَعُوهُ، فَإِنِّي إِنَّمَا ظَنَنْتُ ظَنًّا، فَلَا تُؤَاخِذُونِي بِالظَّنِّ، وَلَكِنْ إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنِ اللهِ شَيْئًا، فَخُذُوا بِهِ، فَإِنِّي لَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ».

٢) حديث رافع بن خديج رضي الله عنه:
صحيح مسلم: (كتاب الفضائل، باب وجوب امتثال ما قاله شرعا، رقم الحديث: 2362، 1835/4، دار إحياء التراث العربي)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الرُّومِيِّ الْيَمَامِيُّ، وَعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، وَأَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَعْقِرِيُّ، قَالُوا: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ وَهُوَ ابْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّجَاشِيِّ، حَدَّثَنِي رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ، قَالَ: قَدِمَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، وَهُمْ يَأْبُرُونَ النَّخْلَ، يَقُولُونَ يُلَقِّحُونَ النَّخْلَ، فَقَالَ: «مَا تَصْنَعُونَ؟» قَالُوا: كُنَّا نَصْنَعُهُ، قَالَ: «لَعَلَّكُمْ لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا كَانَ خَيْرًا» فَتَرَكُوهُ، فَنَفَضَتْ أَوْ فَنَقَصَتْ، قَالَ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: «إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ دِينِكُمْ فَخُذُوا بِهِ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ رَأْيِي، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ» قَالَ عِكْرِمَةُ: أَوْ نَحْوَ هَذَا. قَالَ الْمَعْقِرِيُّ: فَنَفَضَتْ وَلَمْ يَشُكَّ.

٣) حديث أم المؤمنين السيدة عائشة الصديقة، و أنس بن مالك رضي الله عنهما:
صحيح مسلم: (كتاب الفضائل، باب وجوب امتثال ما قاله شرعا، رقم الحديث: 2363، 1836/4، دار إحياء التراث العربي)

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ، كِلَاهُمَا عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَعَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِقَوْمٍ يُلَقِّحُونَ، فَقَالَ: «لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا لَصَلُحَ» قَالَ: فَخَرَجَ شِيصًا، فَمَرَّ بِهِمْ فَقَالَ: «مَا لِنَخْلِكُمْ؟» قَالُوا: قُلْتَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: «أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ».

٤) حديث أم المؤمنين السيدة عائشة الصديقة رضي الله عنها:
مسند أحمد: (رقم الحديث: 24920، 401/41، ط: مؤسسة الرسالة)

حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، وَهِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ أَصْوَاتًا، فَقَالَ: " مَا هَذِهِ الْأَصْوَاتُ؟ " قَالُوا: النَّخْلُ يُؤَبِّرُونَهُ يَا رَسُولَ اللهِ، فَقَالَ: " لَوْ لَمْ يَفْعَلُوا لَصَلُحَ "، فَلَمْ يُؤَبِّرُوا عَامَئِذٍ، فَصَارَ شِيصًا، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِذَا كَانَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ دُنْيَاكُمْ فَشَأْنَكُمْ بِهِ، وَإِذَا كَانَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ دِينِكُمْ فَإِلَيَّ ".

مسند أحمد (رقم الحدیث: 1844، 342/3، ط: الرسالة)
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا خُيِّرَتْ بَرِيرَةُ رَأَيْتُ زَوْجَهَا يَتْبَعُهَا فِي سِكَكِ الْمَدِينَةِ، وَدُمُوعُهُ تَسِيلُ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَكُلِّمَ الْعَبَّاسُ لِيُكَلِّمَ فِيهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَرِيرَةَ: " إِنَّهُ زَوْجُكِ "، قَالَتْ: تَأْمُرُنِي بِهِ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: " إِنَّمَا أَنَا شَافِعٌ " قَالَ: فَخَيَّرَهَا، فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا وَكَانَ عَبْدًا لِآلِ الْمُغِيرَةِ، يُقَالُ لَهُ: مُغِيثٌ

إعلام الموقعين عن رب العالمين: (41/1، ط: دار الكتب العلمية)
"وقال تعالي: {إنما المؤمنون الذين آمنوا بالله ورسوله وإذا كانوا معه على أمر جامع لم يذهبوا حتى يستأذنوه} [النور: 62] فإذا جعل من لوازم الإيمان أنهم لا يذهبون مذهبا إذا كانوا معه إلا باستئذانه فأولى أن يكون من لوازمه أن لا يذهبوا إلى قول ولا مذهب علمي إلا بعد استئذانه، وإذنه يعرف بدلالة ما جاء به على أنه أذن فيه".

نخب الأفكار للعیني: (475/10، ط: وزارة الأوقاف، قطر)
"والتحقيق فيه: أن النبي -عليه السلام- له حالتان:
حالة مطلق البشرية؛ فهو وسائر الناس فيه سواء، والدليل عليه قوله: "أنا بشرٌ مثلكم"؛ لأنه من جنسهم وليس من جنس غيرهم، بالنظر إلى هذه الحالة ربما يظن أمرًا وقد كان الواقع خلافه؛ لأن الظن يخطىء ويصيب كما في سائر الخلق. والحالة الأخرى -التي هي زائدة على تلك الحالة-: وهي كونه نبيًّا رسولاً من عند الله معصومًا في قوله وفعله، بحيث أنه إذا قال قولاً أو فعل فعلاً فهو الحق عند الله تعالى ولا يقع خلافه أصلًا؛ لأنه من الله تعالى وعليه قوله تعالى: {وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (3) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى} (1) غير أن الوحي قسمان:
أحدهما: متلوّ، وهو القرآن.
والآخر: غير متلوّ، وهو أقواله وأفعاله التي في أبواب التشريع.
ثم وجه التمثيل المذكور هو صدور ذلك القول عن ظن ظنه، ألا ترى أنه لمَّا قال في تأبير النخل: ما أظن ذلك يغني شيئًا، وبلغهم ذلك فتركوه، فلم تحمل نخلهم تلك السنة شيئًا، قال: إنما هو ظن ظننته والظن يخطىء ويصيب، ولكن ما قلت لكم: قال الله، فلن أكذب على الله. ولو كان ذلك القول من الله لحملت نخلهم تلك السنة بدون التأبير، فكذلك نهيه عن الاغتيال إنما كان ظنًّا منه لأجل خوفه على أولاد الحوامل، فلما علم من الله تعالى أن ذلك لا يضرهم، قال: لو ضرَّ أحدًا لضرَّ فارس والروم، فدلَّ ذلك أن ما كان من نهيه صار منسوخًا، وثبت أن وطء الرجل امرأته أو أمته حاملاً حلال لا يحرم عليه قط. والله أعلم".

نخب الأفكار للعيني: (475/10، ط: وزارة الأوقاف، قطر)
مَثَّل نهيه -عليه السلام- عن الغيلة بنهيه عن تأبير النخل في كون كل منهما عن ظن ظنه ولم يكن ذلك من طريق الوحي، إذ الذي يقوله من طريق الوحي لا يكون على خلاف ما يقوله، وقد صرَّح في حديث التأبير بقوله: إنما هو ظن ظننته، وصرَّح بأن الظن يخطيء ويصيب، فدلَّ ذلك أن ما قاله من جهة الظن فهو فيه كسائر الناس في ظنونهم، وأما الذي يقوله ولا يخالف فيه فهو الذي يقوله عن الله تعالى؛ لأن ما كان عن الله لا خلاف فيه ولا يقع ما هو خلافه، وبهذا يحصل الجواب عما يقال: كيف يجوز على النبي -عليه السلام- أن يقول شيئًا ويقع خلافه؟ والتحقيق فيه: أن النبي -عليه السلام- له حالتان:
حالة مطلق البشرية؛ فهو وسائر الناس فيه سواء، والدليل عليه قوله: "أنا بشرٌ مثلكم"؛ لأنه من جنسهم وليس من جنس غيرهم، بالنظر إلى هذه الحالة ربما يظن أمرًا وقد كان الواقع خلافه؛ لأن الظن يخطىء ويصيب كما في سائر الخلق".

مجموع الفتاوي: (12/18، ط: مجمع الملك فهد)
"والمقصود: أن جميع أقواله يستفاد منها شرع وهو {صلى الله عليه وسلم لما رآهم يلقحون النخل قال لهم: ما أرى هذا - يعني شيئا - ثم قال لهم: إنما ظننت ظنا فلا تؤاخذوني بالظن ولكن إذا حدثتكم عن الله فلن أكذب على الله} وقال: {أنتم أعلم بأمور دنياكم فما كان من أمر دينكم فإلي} وهو لم ينههم عن التلقيح لكن هم غلطوا في ظنهم أنه نهاهم كما غلط من غلط في ظنه".

حجة الله البالغة: (223/1)
"(المبحث السَّابِع مَبْحَث استنباط الشَّرَائِع من حَدِيث النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)
(بَاب بَيَان أَقسَام عُلُوم النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)
اعْلَم أَن مَا رُوِيَ عَن النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَدون فِي كتب الحَدِيث على قسمَيْنِ.
أَحدهمَا مَا سَبيله سَبِيل تَبْلِيغ الرسَالَة، وَفِيه قَوْله تَعَالَى: {وَمَا آتَاكُم الرَّسُول فَخُذُوهُ وَمَا نهاكم عَنهُ فَانْتَهوا}
مِنْهُ عُلُوم المعادو عجائب الملكوت، وَهَذَا كُله مُسْتَند إِلَى الْوَحْي، وَمِنْه شرائع وَضبط للعبادات والارتفاقات بِوُجُوه الضَّبْط الْمَذْكُورَة فِيمَا سبق، وَهَذِه بَعْضهَا مُسْتَند إِلَى الْوَحْي، وَبَعضهَا مُسْتَند إِلَى الِاجْتِهَاد، واجتهاده صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْزِلَة الْوَحْي؛ لِأَن الله تَعَالَى عصمه من أَن يَتَقَرَّر رَأْيه على الْخَطَأ، وَلَيْسَ يجب أَن يكون اجْتِهَاده استنباطا من الْمَنْصُوص كَمَا يظنّ، بل أَكْثَره أَن يكون علمه الله تَعَالَى مَقَاصِد الشَّرْع وقانون التشريع والتيسير وَالْأَحْكَام، فَبين الْمَقَاصِد المتلقاة بِالْوَحْي بذلك القانون، وَمِنْه حكم مُرْسلَة ومصالح مُطلقَة لم يوقتها، وَلم يبين حُدُودهَا كبيان الْأَخْلَاق الصَّالِحَة وأضدادها، ومستندها غَالِبا الِاجْتِهَاد بِمَعْنى أَن الله تَعَالَى علمه قوانين الارتفاقات، فاستنبط مِنْهَا حكمه، وَجعل فِيهَا كُلية، وَمِنْه فَضَائِل الْأَعْمَال ومناقب الْعمَّال، وَرَأى أَن بَعْضهَا مُسْتَند إِلَى الْوَحْي وَبَعضهَا إِلَى الِاجْتِهَاد، وَقد سبق بَيَان تِلْكَ القوانين، وَهَذَا الْقسم هُوَ الَّذِي نقصد شَرحه وَبَيَان مَعَانِيه.
وَثَانِيهمَا مَا لَيْسَ من بَاب تَبْلِيغ الرسَالَة، وَفِيه قَوْله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا أَنا بشر إِذا أَمرتكُم بِشَيْء من دينكُمْ فَخُذُوا بِهِ وَإِذا أَمرتكُم بِشَيْء من
رَأْيِي، فَإِنَّمَا أَنا بشر " وَقَوله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قصَّة تأبير النّخل: " فانى إِنَّمَا ظَنَنْت ظنا، وَلَا تؤاخذوني بِالظَّنِّ، وَلَكِن إِذا حدثتكم عَن الله شَيْئا، فَخُذُوا بِهِ، فَإِنِّي لم أكذب على الله " فَمِنْهُ الطِّبّ، وَمِنْه بَاب قَوْله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " عَلَيْكُم بالأدهم الأقرح " ومستنده التجربة، وَمِنْه مَا فعله النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ على سَبِيل الْعَادة دون الْعِبَادَة وبحسب الِاتِّفَاق دون الْقَصْد، وَمِنْه مَا ذكره كَمَا كَانَ يذكرهُ قومه كَحَدِيث أم زرع وَحَدِيث خرافة وَهُوَ قَول زيد بن ثَابت حَيْثُ دخل عَلَيْهِ نفر، فَقَالُوا لَهُ حَدثنَا أَحَادِيث رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " كنت جَاره، فَكَانَ إِذا نزل عَلَيْهِ الْوَحْي بعث إِلَيّ، فكتبته لَهُ، فَكَانَ إِذا ذكرنَا الدُّنْيَا ذكرهَا مَعنا، وَإِذا ذكرنَا الْآخِرَة ذكرهَا مَعنا، وَإِذا ذكرنَا الطَّعَام ذكره مَعنا، فَكل هَذَا أحدثكُم عَن رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمِنْه مَا قصد بِهِ مصلحَة جزئية يَوْمئِذٍ وَلَيْسَ من الْأَمر اللَّازِمَة لجَمِيع الْأمة، وَذَلِكَ مثل مَا يَأْمر بِهِ الْخَلِيفَة من تعبئة الجيوش وَتَعْيِين الشعار، وَهُوَ قَول عمر رَضِي الله عَنهُ: مَا لنا وللرمل كُنَّا نتراءى بِهِ قوما قد أهلكهم الله، ثمَّ خشِي أَن يكون لَهُ سَبَب آخر، وَقد حمل كثير من الْأَحْكَام عَلَيْهِ كَقَوْلِه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " من قتل قَتِيلا فَلهُ سلبة " وَمِنْه حكم وَقَضَاء خَاص، وَإِنَّمَا كَانَ يتبع فِيهِ الْبَينَات والايمان وَهُوَ قَوْله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لعَلي رَضِي الله عَنهُ: " الشَّاهِد يرى مَا لَا يرَاهُ الْغَائِب ".

دیگر مراجع و مصادر:
١) "حجیت حدیث" از حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

٢) "سر سید احمد خان کا نظریہ حجیتِ حدیث بحث وتحقیق کے آئینے میں"، از مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی صاحب۔

٣) "آثار الحدیث" از مولانا ڈاکٹر خالد محمود صاحب نور اللہ مرقدہ۔

٤) السنة ومكانتها في التشريع الإسلامي للشيخ مصطفى السباعي، ترجمہ: اسلام میں سنت وحدیث کا مقام، از ڈاکٹر مولانا احمد حسن ٹونکی۔

٥) "حجیت حدیث"، از شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ۔

٦) "تكملة فتح الملهم"، لشيخ الإسلام المفتي محمد تقي العثماني حفظه الله تعالى ورعاه۔

٧) "رحمۃ اللّٰہ الواسعۃ شرح حجۃ اللّٰہ البالغہ"، از حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری نور اللہ مرقدہ۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالإفتاء الاخلاص،کراچی

hujat hadees or waqa " tabeerul nakhal" ki tashreeh

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees