سوال:
ایزی پیسہ سے جب ہم کسی کو پیسے بھیجتے ہیں تو اس کا قبضہ صرف بھیجنے سے ہی شمار ہوگا یا جس کو پیسے بھیجے گئے ہیں وہ اکاؤنٹ سے پیسے نکال لے اس وقت قبضہ شمار ہوگا، نیز جب ہم ایزی پیسہ سے کسی کو زکوۃ بھیجتے ہیں تو پیسے نکالنے کے وقت اس سے کٹوتی ہوتی ہے مثلا ہزار پر 20 روپے تو زکوٰۃ ہزار روپے ادا ہوئی یا 980 روپے؟
جواب: 1۔ واضح رہے کہ ایزی پیسہ یا بینک اکاؤنٹ کے ذریعے رقم بھیجنے میں کی صورت میں وصول کرنے والے کا شرعا قبضہ تب شمار ہوگا، جب رقم اس کے اکاؤنٹ میں پہنچ جائے، اکاؤنٹ میں رقم آجانے کے بعد چونکہ رقم منتقل کرنے والے کا قبضہ اور تصرف کا اختیار مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے، اور جس کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل ہوگئی ہے، وہ اس میں مالکانہ تصرفات (مثلا: وہ رقم کسی اور کو ٹرانسفر کرنے اور اس رقم کو خریداری وغیرہ کرنے میں استعمال) کرسکتا ہے، اس لئے اکاؤنٹ میں رقم پہنچتے ہی زکوۃ ادا ہوجائے گی۔
2۔ ایزی پیسہ اکاؤنٹ کے ذریعے زکوۃ بھیجتے وقت جو اخراجات آئیں، وہ زکوۃ سے شمار نہیں ہونگے، بلکہ اتنی رقم الگ سے زکوۃ کی مد میں ادا کرنی ہوگی۔ جہاں تک اکاؤنٹ میں رقم منتقل ہوجانے کے بعد اسے نکلوانے کے سلسلے میں آنے والے اخراجات کا تعلق ہے، تو چونکہ اکاؤنٹ میں رقم پہنچتے ہی وہ وصول کرنے والے کی ملکیت اور قبضہ میں آگئی ہے، اس لئے بھیجنے والے کی زکوۃ ادا ہو گئی ہے، اب اس کے بعد رقم نکالنے کی صورت میں جو اخراجات آئیں گے، رقم بھیجنے والے کے ذمہ نہیں ہوں گے، اور جتنی رقم اکاؤنٹ میں آئی ہو، اتنی ہی رقم کے بقدر اس کی زکوۃ ادا ہوگئی۔
البتہ اگر ایزی پیسہ وغیرہ کے ذریعے زکوۃ کی رقم مستحق کے اکاؤنٹ میں نہ بھیجی جائے، بلکہ اس کے شناختی کارڈ وغیرہ کے ذریعے اس کے نمبر پر رقم بھیج دی جائے، تو اس صورت میں اس رقم پر وصول کرنے والے کی ملکیت اور قبضہ تب آئے گا، جب وہ پیسے نکلوا لے گا، لہذا ایسی صورت میں پیسے نکالتے وقت جو خرچہ ہوگا، اسے زکوۃ کی مد میں شمار کرنا درست نہیں ہوگا، خرچہ کی مد میں جتنی رقم کٹے گی، اس رقم کے بقدر زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (فصل ما يوضع فى بيت المال اربعة انواع، 190/1)
إذا دفع الزكاة إلى الفقير لا يتم الدفع ما لم يقبضها
فقه البیوع: (441/1، ط: مکتبة معارف القرآن)
ربما یقع تسلیم النقود عن طریق التحویل المصرفی وذالك بأن یکون لزید رصید فی حسابه الجاری لدی بنك ألف، و لعمرو رصید فی حسابه الجاری لدی بنك ب، فیأمر زید بنك ألف أن یحول مبلغا الی رصید عمرو فی بنک ب. فحینما یدخل المبلغ فی رصید عمرو فی بنك ب، یعتبر عمرو قابضا لتلك النقود
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی