عنوان: مضاربت میں رب المال (investor) کی طرف سے بطور تعاون دی جانے والی رقم کا حکم (9881-No)

سوال: زید اور بکر نے ایک کاروبار شروع کیا جو کہ 288000 روپے کا تھا جس میں یہ طے ہوا کہ زید کی طرف سے پیسے ہوں گے اور بکر کی طرف سے محنت ہوگی اور نفع دونوں کا آدھا آدھا ہوگا لیکن اس کاروبار کے لیے رقم مزید ایک لاکھ روپے درکار تھی اور زید کے پاس یہ رقم نہیں تھی، بکر نے کہا کہ میں تمہارے یہ ایک لاکھ روپے پورے کرسکتا ہوں لیکن پھر میراحصہ ڈبل ہوجائے گا اور آپ کاحصہ ایک ہوگا جس کی وجہ سے آپ کا نفع کم ہوگا اور میں یہ نہیں چاہتا البتہ میں دوستی میں یہ کرسکتا ہوں کہ 50 ہزار روپے بطور تعاون کے دے دوں، اس تعاون کو زید نے شرکت سمجھا، جبکہ بکر نے قرض کے طور پر دیئے تھے لیکن قرض کی صراحت نہیں کی تھی اور چونکہ بکر کا مقصد بطور قرض تعاون کرنا تھا، اس لئے اس 50 ہزار روپے کے نفع کا حصہ مقرر نہیں ہوا اور بکر بھی اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ رقم بطور ہبہ کے نہیں دی گئی، اب کام شروع کرنے سے پہلے اس دکان کا 40 ہزار روپے بیعانہ دیا، 20 ہزار روپے زید نے دیئے اور 20 ہزار روپے بکر نے اور یہ اس لئے بکرنے دیئے کہ 50 ہزار بطور تعاون دینے کی بات کی ہے، ابھی میرے پاس 20 ہزار ہیں تو وہ دیدیتا ہوں پھر دکان مفید ثابت نہ ہونے کی صورت میں دکان واپس کردی جس پر ثالث نے بیس ہزار کٹوتی کا فیصلہ کیا۔
اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ معاملہ مضاربت کا ہے یا شراکت کا اور بیعانہ میں جو نقصان ہوا ہے وہ کس پر آئے گا؟

جواب: شروع میں معاملہ کرتے وقت چونکہ زید کی طرف سے رقم جبکہ بکر کی طرف سے محنت کا ہونا طے پایا تھا، اس لئے یہ معاملہ شرعا "مضاربت" کہلائے گا، جس میں زید "رب المال" اور بکر "مضارب" ہے، مضاربت میں چونکہ رب المال مضارب سے قرض لے سکتا ہے، اس لیے بکر کی طرف سے بطور تعاون دی جانے والی رقم فریقین کے تفاہم (understanding) کے مطابق قرض شمار ہوگی، بالخصوص اس لیے بھی کہ اس کا کچھ نفع الگ سے مقرر نہیں کیا گیا تھا، جب یہ رقم قرض ہے تو زید نے جتنا قرض لیا ہے، اس قدر رقم کی واپسی اس کے ذمہ ہے۔
جہاں تک دکان واپسی کی وجہ سے ہونے والی کٹوتی کا تعلق ہے، تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر دکان مضارب (بکر) کی کسی غلطی یا کوتاہی کی وجہ سے واپس کی گئی ہو، تو ایسی صورت میں کٹوتی کی رقم کا ذمہ دار مضارب ہوگا، اور اگر دکان کی واپسی میں مضارب کی کسی غلطی کا کوئی دخل نہ ہو بلکہ اس نے طے شدہ یا معروف طریقہ کار کے مطابق ٹھیک طریقے سے دکان چلانے کی کوشش کی لیکن کسی وجہ سے مفید ثابت نہ ہوئی اور واپس کرنی پڑی تو ایسی صورت میں کٹوتی کی رقم مال مضاربت سے ادا کی جائے گی، مضارب (بکر) اس کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الفتاوي الهندیة: (285/4، ط: دار الفکر)
أما تفسیرها شرعا فهي عبارة عن عقد علی الشرکة فی الربح بمال من أحد الجانبین و العمل من الجانب الآخر.

بدائع الصنائع: (86/6، ط: دار الکتب العلمیة)
إذا لم يمكن تصحيحها مضاربة تصحح قرضا؛ لأنه أتى بمعنى القرض، والعبرة في العقود لمعانيها.

مجلة الأحكام العدلية: (ص: 273، ط: نور محمد کتب خانه)
(المادة: 1413) المضارب أمين ورأس المال في يده في حكم الوديعة.

و فیها أیضا: (ص: 148، ط: نور محمد کتب خانه)
(المادة: 777) الوديعة أمانة بيد المستودع بناء عليه إذا هلكت أو فقدت بدون صنع المستودع وتعديه وتقصيره في الحفظ لا يلزم الضمان.

واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 423 Oct 20, 2022
muzarbat me / mein rabul maal / investor ki taraf se /say batoor tawun di jane wali raqam ka hokom / hokum.

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.