سوال:
چند سال پہلے میری ساس اور سسر صاحب تشریف لائے اور علیحدگی میں مجھے ایک زیورات کا سیٹ بل کے ساتھ تھما دیا، میں نے ان سے درخواست کی کہ اپنی بیٹی کے حوالے کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے کہا آپ کو دینا ہے اور یہ آپ کی بیٹی کی شادی کیلئے لائے ہیں۔ میں نے وہ لئے اور اپنی بیوی کے کے حوالے کردیئے، مجھے یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے اس سلسلے میں میری بیوی سے کوئی بات کی ہو۔
اب جاکر معلوم ہوا کہ میری بیوی نے منگوائے تھے، یہ بیوی کی عادت بن گئی ہے کہ مجھے بتائے بغیر باہر سے آنے والوں سے چیزیں, کپڑے وغیرہ منگوا لینا اور پھر پیسوں کی ادائیگی کا مطالبہ کرنا۔ میں اکیلا کمانے والا، بڑا گھر، بڑی فیملی اور مقروض ہوں۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے، کیا اس طریقہ سے آئ ہوئی چیزوں کی ادائیگی مجھ پر واجب ہے، جن کا نہ مجھے پیشگی علم ہے اور نہ ہی دونوں جانب سے یعنی بیوی اور سسرال کسی طرف سے کوئی اشارہ تک نہیں ملتا۔ تب سے اب تک اس زیور کے سیٹ کی زکوۃ ہر سال ادا کر رہا ہوں مگر رقم کی ادائیگی فی الحال بس سے باہر ہے۔ اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا
جواب: شریعت مطہرہ نے جہاں ایک طرف مرد کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئے تو دوسری طرف عورت کو بھی اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ جائز مطالبات میں اپنے شوہر کی مکمل اطاعت کرے اور اس بارے میں کسی قسم کی کوتاہی سے کام نہ لے۔
میاں بیوی کا رشتہ حقیقی معنوں میں تب ہی خوش گوار اور قلبی وذہنی راحت کا ذریعہ بن سکتا ہے، جب میاں بیوی دونوں شریعت کی طے کردہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی پورا کریں گے۔
بیوی کے لیے ہر گز ایسا فعل درست نہیں ہے جو شوہر کی تکلیف اور پریشانی کا باعث بنے خصوصاً شوہر کی اجازت کے بغیر ایسے مالی معاملات طے کرنا جن کی ذمہ داری بعد میں شوہر پر ہی عائد ہوتی ہو، لہذا بیوی پر لازم ہے کہ اس طرح کے معاملات شوہر کی رضامندی اور مشاورت سے ہی طے کرے۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ سونا شوہر کے کہنے پر نہیں خریدا گیا ہے، بلکہ بیوی نے از خود منگوایا ہے، لہذا اس سونے کی قیمت کی ادائیگی شوہر کے ذمہ شرعا لازم نہیں ہے، تاہم اگر شوہر بیوی کے ساتھ حسن معاشرت قائم رکھنے کی غرض سے اس سونے کی قیمت ادا کردے تو یہ اس کے لیے اجر و ثواب کا باعث ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (النساء، الاية: 34)
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا o
الفتاوي الهندية: (كتاب الوكالة، 560/3، ط: دار الفكر)
أما معناها [الوكالة] شرعا: فهو إقامة الانسان مقام نفسه في تصرف معلوم حتى إن لم يكن معلوما يثبت به ادني تصرفات الوكيل وهو الحفظ.
وأما ركنها: فالألفاظ التي تثبت بها الوكالة من قوله: وكلتك ببيع هذا العبد أو شرائه كذا في السراج الوهاج.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی