عنوان: والدہ کا مکان میں رہائش رکھتے ہوئے بیٹوں کو ہبہ کرنا(9955-No)

سوال: ایک عورت نے اپنی زندگی میں گھر اپنے تینوں بیٹوں کے نام کر دیا تھا، نام کرنے کے بعد اس عورت کی رہائش اسی گھر میں تھی، اب ایک بیٹا انتقال کر گیا ہے تو جو بیٹا انتقال کر گیا ہے اس کی بیوی بچوں کو اس گھر میں حصہ ملے گا؟

جواب: واضح رہےکہ ہبہ (گفٹ) مکمل ہونے کے لیے شرعا ضروری ہے کہ وہ چیز مالکانہ اختیارات کے ساتھ اس شخص (جس کو ہبہ کی جارہی ہے) کے حوالے کی جائے، اس طور پر کہ ہبہ (گفٹ )کرنے والے کا اس چیز میں کسی قسم کا کوئی عمل دخل (رہائش، ساز و سامان، قبضہ و تصرف) باقی نہ رہے۔
نیز ایک سے زائد لوگوں کو قابلِ تقسیم گھر ہبہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں ہر ایک کا حصہ متعین کرکے اسے اس کی جگہ دے دی جائے، صرف زبانی طور پر ہبہ کر دینے سے ہبہ مکمل نہیں ہوتا۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں اگرچہ والدہ نے مکان تینوں بیٹوں کے نام کر دیا تھا لیکن چونکہ مکان نام کرنے کے بعد والدہ اس گھر سے نہیں نکلی تھیں، اور مشترک مشاع چیز کو تقسیم اور حصے متعین کر کے ہبہ نہیں کیا، اس لیے اس مکان میں تینوں بیٹوں کی ملکیت ثابت نہیں ہوئی، بلکہ یہ مکان بدستور والدہ کی زندگی میں ان ہی کی ملکیت ہی شمار ہوگا اور ان کے انتقال کے بعد ان کے شرعی ورثاء میں میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار مع رد المحتار: (كتاب الهبة، 690/5، 691، ط: سعيد)
(وتتم ) الهبة ( بالقبض ) الكامل ( ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها وإن شاغلا لا فلو وهب جرابا فيه طعام الواهب أو دارا فيها متاعه أو دابة عليها سرجه وسلمها كذلك لا تصح.

الدر المختار مع رد المحتار: (692/5، ط: سعید)
"(و لو سلمه شائعًا لايملكه فلا ينفذ تصرفه فيه) فيضمنه و ينفذ تصرف الواهب، درر. ... و له: و لو سلمه شائعًا إلخ) قال في الفتاوى الخيرية: و لاتفيد الملك في ظاهر الرواية قال الزيلعي: و لو سلمه شائعًا لايملكه حتى لاينفد تصرفه فيه فيكون مضمونًا عليه، و ينفذ فيه تصرف الواهب، ذكره الطحاوي وقاضي خان، وروي عن ابن رستم مثله، وذكر عصام أنها تفيد الملك وبه أخذ بعض المشايخ."

الفتاوی الهندية: (كتاب الهبة، 392/4، ط: رشیدیة)
"فالمروي عنه في الهبة إذا كان الواهب في الدار أو كان فيها متاع الواهب أنه لا يجوز."

الأصل للشيباني: (باب الهبة فيما لايجوز، 372/3، ط: دار ابن حزم)
"الرجل يهب الدار لرجلين و دفعها إليهما و لم يقسم لكل واحد منهما نصيبه هل تجوز الهبة؟ قال: لا. قلت: و كذلك الصدقة."

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 382 Nov 21, 2022
walida ka makan mein rihaish / rishayesh rakhte howe beto / beton ko hiba karna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.