سوال:
میں ایک 34 سالہ بیوہ ہوں، میں نے اپنے ایک رضاعی بھائی (27 سال عمر، غیر شادی شدہ) کو گاوں سے بلا کر اپنے گھر میں رکھا ہے تاکہ گھر کی مناسب حفاظت رہے اور یہ کہ لوگوں کہ پتہ چلے کہ گھر میں ایک مرد موجود ہے اور اس طرح بری نظروں اور مجرموں سے امن ہو، میری دو بالغ بیٹاں اور بیٹا نابالغ بچہ ہے۔
اس ضمن میں میرا سوال یہ ہے کہ چونکہ معاشرے میں رضاعی رشتوں کے میل جول کا رواج نہیں ہے اس لیے کیا میرے لیے جائز ہے کہ میں اس کا تعارف سگے بھائی کے طور پر کروں؟ نیز کیا گھر کے اندر مجھے اور میری بالغ بیٹیاں (16 اور 13 سالہ) کو اس کی موجودگی میں سر کے بال کنگھی کرنا، بناو سنگار کرنا یا ننگے سر کام کاج کرنا جائز ہے؟
جواب: 1) واضح رہے کہ رضاعی بھائی کو "بھائی" کے الفاظ سے پکارنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ معاشرے میں اسے اپنے سگے بھائی کے طور پر پیش کرنا ناجائز عمل ہے، کیونکہ شریعت میں نسب تبدیل کرنے کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے۔
2) رضاعی بھائی چونکہ محرم ہوتا ہے، لہذا رضاعی بھائی اپنی رضاعی بہن کے ساتھ میل جول رکھ سکتا ہے، البتہ خلوت اور تنہائی میں ملاقات نہیں کرسکتا، لہذا سوال میں پوچھی گئی صورت میں صرف رضاعی بھائی کے ساتھ گھر میں رہائش اختیار کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اس دوران رضاعی بہن یا رضاعی بھانجیوں کے ساتھ خلوت لازم آنے کا غالب امکان ہے، جبکہ ان کے ساتھ خلوت اختیار کرنے سے اجتناب ضروری ہے۔
نیز واضح رہے کہ میل جول رکھنے کی صورت میں رضاعی بہن اور بالغ رضاعی بھانجیوں کا اس کے سامنے سر میں کنگھی کرنا، گھر کے کام کرنا اور حدود میں رہتے ہوئے زیب وزینت اختیار کرنا جائز ہے، البتہ اگر اس سے کسی فتنے کا اندیشہ ہو تو پھر اس سے پردہ کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (باب من ادعی الی غیر ابیہ، رقم الحدیث: 6766، 273/6، ط: دار الکتب العلمیة)
عَنْ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ ، فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ.
الهداية: (104/4، ط: مكتبة البشري)
قال: " وينظر الرجل من ذوات محارمه الى الوجه والرأس والصدر والساقين والعضدين، ولا ينظر الى ظهرها وبطنها وفخذها" : والاصل فيه قوله تعالي: {ولا يبدين زينتهن إلا لبعولتهن} [ النور: ٣١] الآية، والمراد والله أعلم مواضع الزينة وهي ما ذكر في الكتاب، ويدخل في ذلك الساعد والأذن والعنق والقدم ؛ لأن كل ذلك مواضع الزينة بخلاف الظهر والبطن والفخذ لأنها ليست من مواضع الزينة، ولان البعض يدخل على البعض من غير استئذان واحتشام والمرأة في بيتها في ثياب مهنتها عادة، فلو حرم النظر الى هذه المواضع أدى الى الحرج، وكذا الرغبة تقل للحرمة المؤبدة فقلما تشتهي بخلاف ما وراءها لأنها لا تنكشف عادة. والمحرم من لا تجوز المناكحة بينه وبينها على التأبيد بنسب كان أو بسبب كالرضاع والمصاهرة لوجود المعنيين فيه، وسواء كانت المصاهرة بنكاح أو سفاح في الأصح لما بينا.
الدر المختار مع رد المحتار: (369/6، ط: دار الفكر)
والخلوة بالمحرم مباحة إلا الأخت رضاعا.
(قوله: الا الأخت رضاعا): قال في القنية: وفي استحسان القاضي الصدر الشهيد: وينبغي للأخ من الرضاع أن لا يخلو بأخته من الرضاع، لأن الغالب هناك الوقوع في الجماع اه. وافاد العلامة البيري أن ينبغي معناه الوجوب هنا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی