سوال:
سوال عرض ہے کہ ہم جس گھر میں رہائش پذیر ہیں یہ گھر والد صاحب نے اپنی زوجہ کے نام سے ہی خریدا تھا یہ گھر کبھی بھی ابو کے نام نہیں ہوا پیسوں کی ادائیگی ابو نے اپنی جیب سے کی، اس گھر میں قبضہ اور تصرف یعنی گھر کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ لینے کا اختیار امی اور ابو دونوں کے پاس تھا، یعنی مکمل اختیار والدہ کے پاس نہیں تھا، مورخہ 5 فروری کو والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔
قرآن و سنت کی روشنی میں جواب درکار ہے کہ یہ گھر والدہ محترمہ کی ذاتی ملکیت تصور کیا جائے گا یا گھر وارثین میں تقسیم کیا جائے گا؟
جواب: سوال میں بیان کردہ صورت میں چونکہ آپ کے والد نے اس مکان میں اپنا تصرف بھی برقرار رکھا ہوا تھا، جس کی وجہ سے آپ کی والدہ کا اس مکان پر قبضہ تام نہیں ہوا، اس لیے وہ مکان شرعاً آپ کے والد صاحب کی ملکیت میں برقرار ہے، لہذا یہ مکان والد صاحب کی وفات کے بعد ان کے ترکہ میں شمار ہوگا اور ان کے شرعی ورثاء میں شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (کتاب الھبة، 687/5، ط: سعید)
الھبة تملیک العین مجانا، أي بلا عوض.
شرح المجلة لسلیم رستم باز: (رقم المادة: 833)
الھبة تملیک مال لآخر بلا عوض، أي بلا شرط عوض.
و فیه أیضا: (رقم المادة: 837)
تنعقد الھبة بالإیجاب والقبول، وتتم بالقبض الکامل؛ لأنھا من التبرعات، والتبرع لا یتم إلا بالقبض.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی