سوال:
میرا ویب ڈیزائننگ کا کام ہے جو میں کراچی سے امریکہ میں کرتا ہوں، کام اس طرح سے ہے کہ میں نے امریکہ میں فیس بھر کر اپنی کمپنی رجسٹر کی ہے اور وہیں کا بینک اکاؤنٹ استعمال کرتا ہوں اور کمپنی ایڈریس بھی وہیں کا ہے، مجھے آن لائن کسٹمرز ملتے ہیں جن کو یہ ہی لگتا ہے کہ امریکن کمپنی ہے، میرا پارٹنر یہاں کراچی سے انٹرنیٹ کے ذریعے وہاں امریکن لوگوں کو کال کرتا ہے اور خود کو بھی امریکن ہی ظاہر کرتا ہے اور ہمیں ویب سائٹ بنانے کا کام ملتا ہے، ہمیں پیمنٹ آن لائن آتی ہے اور ہم کراچی سے بیٹھ کر یہ کام کرتے ہیں، جبکہ کسٹمرز کو یہ لگتا ہے ہم امریکن ہیں اور وہیں سے بیٹھ کر کام کرتے ہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ اگر ہم خود کو پاکستانی ظاہر کرتے ہیں تو ہمیں کام نہیں ملیگا کیونکہ ہم پاکستانی دنیا میں دو نمبری میں بدنام ہیں اور اگر کام مل بھی گیا تو پیمنٹ پاکستانی روپوں کے حساب سے ملی گی جو کہ بہت کم ہوگی۔
ہم پوری ایمانداری سے کام کرتے ہیں، کبھی کسٹمرز کو شکایت نہیں ہوئی، بس ہم خود کو پاکستانی ظاہر نہیں کرتے پوچھنا یہ ہے کہ اس کام میں اور اس کی آمدنی میں کوئی مضائقہ تو نہیں ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں کمپنی چونکہ امریکہ میں رجسٹرڈ ہے، اس لئے اسے امریکی کمپنی کے طور پر ظاہر کرنے کی گنجائش ہے، لیکن پاکستانی ہونے کے باوجود اپنی شناخت امریکی باشندے کے طور پر کرانا جھوٹ اور غلط بیانی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے، صریح جھوٹ اور دھوکہ دہی سے بچتے ہوئے کوئی حکمت عملی اختیار کی جاسکتی ہے۔
تاہم سوال میں پوچھی گئی صورت میں اگر جائز خدمات (Services) دی جائیں تو جائز کام کے عوض ملنے والی اجرت کو بہر حال ناجائز یا حرام نہیں کہا جاسکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 1972، ط: دار الغرب الإسلامي)
وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا كذب العبد تباعد عنه الملك ميلا من نتن ما جاء به
مرقاة المفاتيح: (رقم الحدیث: 2783، ط: دار الفكر، بيروت)
وعن رافع بن خديج رضي الله عنه قال: «قيل: يا رسول الله: أي الكسب أطيب؟ قال: " عمل الرجل بيده، وكل بيع مبرور» ". رواه أحمد
(وعن رافع بن خديج قال: قيل: يا رسول الله أي الكسب) : أي أنواعه (أطيب) ؟ أي أحل وأفضل (قال: عمل الرجل بيده) ، أي من زراعة أو تجارة أو كتابة أو صناعة (وكل بيع مبرور)..... والمراد بالمبرور أن يكون سالما من غش وخيانة
الفتاوی الھندیة: (413/4، ط: دار الفکر)
ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها، كذا في شرح الطحاوي.
و اللہ تعالی اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی