عنوان: بیٹے کا والدہ کے علاج اور بہن کے لیے گھر خریدنے کے لیے دی گئی رقم کا مطالبہ کرنا (9984-No)

سوال: ایک عورت کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں تین بیٹوں میں سے دو بیٹے باہر ملک میں ہیں ایک بیٹا لاہور میں ہے دو بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کی شادی ہوگئی ہے اور ایک بیٹی معذور ہے جو نہ بول سکتی ہے اور نہ سن سکتی ہے ماں بیمار ہو گئی تھی تو جو دو بیٹے باہر ملک میں تھے ان لوگوں نے ماں کے اوپر پیسے لگائے اس کے بعد ان کی ماں کا انتقال ہوگیا انتقال کے بعد اب جو دو بیٹے باہر ملک میں ہیں وہ یہ کہہ رہے ہیں جو پیسے ہم نے ماں کے اوپر خرچ کیے ہیں وہ پیسے ہم لیں گے ان پیسوں کو لینے کے بعد ہم میراث تقسیم کریں گے اگر یہ پیسے ہمیں نہیں ملے تو ہم اپنا حق ماں کو معاف نہیں کریں گے جب ماں زندہ تھی تو ماں نے اپنے پیسوں سے معذور بیٹی کیلئے ایک فلیٹ خریدا تھا اور معذور بیٹی کے نام پر کر دیا تھا اس بڑے بیٹے نے اس فلیٹ کو خریدتے وقت ان کو ڈیڑھ لاکھ روپے دیے تھے لیکن اس ٹائم کوئی بات نہیں ہوئی تھی کہ یہ پیسے میں پارٹنرشپ کے طور پر دے رہا ہوں یا میں یہ پیسے واپس لے لوں گا اب ماں کے انتقال کے بعد وہ فلیٹ گیا بڑے بھائی نے اس میں آٹھ لاکھ روپے جو ایڈوانس ملے ہیں وہ لے لئے یہ کہہ کر کہ میں نے بھی اس میں ڈیڑھ لاکھ روپے دیے تھے حالانکہ اس ٹائم ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی کہ یہ پیسے میں واپس لوں گا یا میں اس فلیٹ میں پارٹنر ہوں۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ بڑے بیٹے کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے لینا جائز ہے یا ناجائز ہے اور دوسرا سوال یہ ہے کہ ماں کی بیماری پر جو پیسے لگائے تھے وہ پیسے لینے کا حقدار ہے یا نہیں؟ قرآن اور حدیث کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرما دیجیے۔

جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر بیٹے نے قرض کی صراحت یا واپسی کے معاہدے کے ساتھ والدہ کے علاج پر رقم خرچ کی تھی تو میراث تقسیم کرنے سے پہلے یہ رقم مرحومہ والدہ کی میراث سے مذکورہ بیٹے کو دی جائے گی، اور اگر رقم قرض کی صراحت یا واپسی کے معاہدہ کے بغیر والدہ کے علاج پر رقم خرچ کی تھی تو یہ رقم بیٹے کی طرف سے اپنی والدہ پر تبرع و احسان ہوگا، اس صورت میں اس رقم کو میراث سے نہیں نکالا جائے گا، بلکہ اس رقم کو بھی والدہ کی کل میراث میں شامل کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ اگر بیٹے نے والدہ کو رقم بہن کے لیے گھر خریدنے میں تعاون کے طور پر دی تھی تو ایسی صورت میں بیٹے کے لیے دی ہوئی رقم والدہ کی میراث میں سے لینا درست نہیں ہے، اور اگر اس نے وہ رقم والدہ کو قرض کے طور پر دی تھی تو وہ رقم والدہ پر قرض ہوگی جو ان کی میراث سے نکال کر بیٹے کو دی جائے گی، لیکن اگر اس نے پیسہ دیتے وقت کوئی وضاحت نہیں کی تھی (نہ ہدیہ کی، نہ قرض کی) تو ایسی صورت میں بیٹے کی طرف سے مکان کے لیے دی جانے والی رقم ہدیہ (گفٹ) سمجھی جائے گی اور بیٹے کے لیے یہ رقم واپس لینا درست نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الفتاوی الهندية: (كتاب الفرائض، 447/6، ط: مکتبة رشيدية)
"ثم بالدين و أنه لايخلو إما أن يكون الكل ديون الصحة أو ديون المرض، أو كان البعض دين الصحة والبعض دين المرض، فإن كان الكل ديون الصحة أو ديون المرض فالكل سواء لايقدم البعض على البعض، و إن كان البعض دين الصحة و البعض دين المرض يقدم دين الصحة إذا كان دين المرض ثبت بإقرار المريض، وأما ما ثبت بالبينة أو بالمعاينة فهو و دين الصحة سواء، كذا في المحيط."

رد المحتار: (كتاب الهبة، 688/5، ط: دار الفکر)
وفي خزانة الفتاوى: إذا دفع لابنه مالا فتصرف فيه الابن يكون للأب إلا إذا دلت دلالة التمليك بيري.
قلت: فقد أفاد أن التلفظ بالإيجاب والقبول لا يشترط، بل تكفي القرائن الدالة على التمليك كمن دفع لفقير شيئا وقبضه، ولم يتلفظ واحد منهما بشيء، وكذا يقع في الهداية ونحوها فاحفظه.

تنقيح الفتاوى الحامدية: (155/2، ط: دار المعرفة)
والأصل أن من بنى في دار غيره بناء وأنفق في ذلك بأمر صاحبه كان البناء لصاحب الدار وللباني أن يرجع على صاحب الدار بما أنفق ا ه.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 411 Nov 28, 2022
betey / betay ka walida k elaj / ilaj or behen k liye ghar karidne k liye de gai raqam ka mutalba karna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.