سوال:
میں (خاتون) اور میری بہن امی کے ساتھ بغیر کسی محرم کے پاکستان سے سعودی عرب (مکہ) بھائی کی طرف جا رہے ہیں، ہم عمرہ کرنے پاکستان سے احرام باندھ کر ہی جائیں گے اور بھائی کے گھر جاکر آرام کر کے اگلے دن عمرہ کریں گے۔ بھائی کا گھر حرم کی حدود سے پانچ کلو میٹر اور خانہ کعبہ سے بیس یا پچیس کلومیٹر باہر جعرانہ والی میقات اور حرم کے درمیان ہے، ہمارا ارادہ وہاں سے بھائی کے ساتھ عمرہ کرنے کا ہے، اس سلسلے میں چند سوالات پوچھنے ہیں:
۱) کیا اس طرح ہمارا محرم کے بغیر وہاں جانا جائز ہے؟
۲) جب ہم ایک عمرہ بھائی کے ساتھ کرلیں گے تو کیا اس کے بعد باقی عمرے بھائی کے بغیر (یعنی بغیر محرم کے) کرسکتے ہیں؟
۳) چونکہ بھائی کا گھر جعرانہ میقات اور حرم کے درمیان ہے تو کیا دوسرے عمرے میں ہماری میقات بھائی کا گھر ہی ہو سکتا ہے، یعنی کیا ہم ان کے گھر سے ہی احرام کی نیت کرسکتے ہیں؟
جواب: ۱) واضح رہے کہ خواتین کے لیے بغیر محرم کے 48 میل یا اس سے زائد کا سفر کرنا جائز نہیں ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں خواتین کے لیے بغیر محرم کے پاکستان سے سعودی عرب کا سفر کرنا جائز نہیں ہے۔
۲) جی ہاں! چونکہ بھائی کا گھر مسجدِ حرام سے 48 میل کے اندر اندر ہے، اس لیے بھائی کے گھر سے عمرہ کرنے کے لیے محرم کے بغیر سفرکرنا جائز ہے، تاہم چونکہ آپ عمرے کے مقدس سفر پر جا رہی ہیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ محرم کے ساتھ ہی جائیں، تاکہ کسی بھی فتنے کا اندیشہ نہ رہے۔
۳) اگر آپ کے بھائی کا گھر حرم کی حدود سے باہر اور میقات کی حدود کے اندر یعنی "حِل" میں ہے تو جو عمرے بھائی کے گھر سے کرنے جائیں، ان میں بھائی کے گھر سے ہی احرام کی نیت کرنا درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهداية: (133/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
والمواقيت التي لا يجوز أن يجاوزها الإنسان إلا محرما خمسة لأهل المدينة ذو الحليفة ولأهل العراق ذات عرق ولأهل الشام الجحفة ولأهل نجد قرن ولأهل اليمن يلملم " هكذا وقت رسول الله عليه الصلاة والسلام هذه المواقيت لهؤلاء. وفائدة التأقيت المنع عن تأخير الإحرام عنها لأنه يجوز التقديم عليها بالاتفاق.
و فيها أيضا: (134/1، ط: دار إحیاء التراث العربي)
ومن كان داخل الميقات فوقته الحل معناه الحل " الذي بين المواقيت وبين الحرم لأنه يجوز إحرامه من دويرة أهله وما وراء الميقات إلى الحرم مكان واحد ومن كان بمكة فوقته في الحج الحرم وفي العمرة الحل لأن النبي عليه الصلاة والسلام أمر أصحابه رضي الله عنهم أن يحرموا بالحج من جوف مكة وأمر أخا عائشة رضي الله عنهما أن يعمرها من التنعيم وهو في الحل ولأن أداء الحج في عرفة وهي في الحل فيكون الاحرام من الحرم ليتحقق نوع سفر وأداء العمرة في الحرم فيكون الإحرام من الحل لهذا إلا أن التنعيم أفضل لورود الأثر به والله أعلم.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی