عنوان: دو تولہ سونے اور خرچے کے پیسوں پر زکوۃ (10009-No)

سوال: ایک خاتون کی جب شادی ہوئی اس وقت ان کے پاس کچھ سونا اور کچھ رقم جمع ہو گئی تھی لیکن چاندی بالکل نہیں تھی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ دو سال ہونے والے ہیں شادی پر دو تولہ سونا جمع ہوا تھا اور جو رقم جمع ہوئی تھی وہ چند ماہ میں ہی خرچ ہو گئی تھی اور شوہر جو پیسے خرچے کے دیتا ہے تو وہ کبھی ہوتے ہیں کبھی بالکل نہیں ہوتے، ایسی صورت میں زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟

جواب: اگر کسی کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سے کم سونا ہو اور اس کے ساتھ سال کے شروع اور آخر میں چاندی، مال تجارت یا ضرورت سے زائد نقد رقم ہو اور ان سب کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر ہو تو ایسے شخص پر زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگا، لیکن اگر اس سونے کے ساتھ سال کے شروع اور آخر میں ضرورت سے زائد نقد رقم یا مال تجارت یا چاندی نہ ہو، بلکہ درمیان سال میں رقم آتی رہی اور خرچ ہوتی رہی تو ایسے شخص پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔
مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق اگر خاتون کے پاس صرف دو تولہ سونا ہو اور اس کی ملکیت میں کچھ نقدی بھی ہو، جو اس کی ضرورت (مثلاً: گھریلو ماہانہ اخراجات) سے زائد ہو، اس سونے اور نقدی کو ملا کر چاندی کا نصاب (ساڑھے باون تولہ) کی مالیت پوری ہوتی ہو تو وہ خاتون زکوٰۃ کے نصاب کی مالک بن جائے گی، اور اگر سال پورا ہونے پر بھی اس کی یہی صورت ہو تو ایسی خاتون پر زکوٰۃ ادا کرنا شرعاً واجب ہوگا اور اگر سال کے شروع اور آخر میں چاندی کا نصاب مکمل نہ ہو تو صرف دو تولہ سونے پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (302/2، ط: دار الفکر)
"(وشرط كمال النصاب) ولو سائمة (في طرفي الحول) في الابتداء للانعقاد وفي الانتهاء للوجوب (فلا يضر نقصانه بينهما) فلو هلك كله بطل الحول".

البحر الرائق: (247/2، ط: دار الکتاب الاسلامی)
"(قوله ونقصان النصاب في الحول لا يضر إن كمل في طرفيه) ؛ لأنه يشق اعتبار الكمال في أثنائه إما لا بد منه في ابتدائه للانعقاد وتحقيق الغناء، وفي انتهائه للوجوب".

بدائع الصنائع: (19/2، ط: دار الکتب العلمیة)
"فأما إذا كان له الصنفان جميعا فإن لم يكن كل واحد منهما نصابا بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا....(ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة ؛ ولأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما وهو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة والثمنية، فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد ؛ ولهذا اتفق الواجب فيهما وهو ربع العشر على كل حال وإنما يتفق الواجب عند اتحاد المال.
وأما عند الاختلاف فيختلف الواجب وإذا اتحد المالان معنىً فلايعتبر اختلاف الصورة كعروض التجارة، ولهذا يكمل نصاب كل واحد منهما بعروض التجارة ولايعتبر اختلاف الصورة، كما إذا كان له أقل من عشرين مثقالاً وأقل من مائتي درهم وله عروض للتجارة ونقد البلد في الدراهم والدنانير سواء، فإن شاء كمل به نصاب الذهب وإن شاء كمل به نصاب الفضة، وصار كالسود مع البيض، بخلاف السوائم؛ لأن الحكم هناك متعلق بالصورة والمعنى وهما مختلفان صورة ومعنى فتعذر تكميل نصاب أحدهما بالآخر".


واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1443 Dec 06, 2022

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.