عنوان: طلاق کے بعد دباؤ میں آکر مہر معاف کرنا(10012-No)

سوال: سوال یہ ہے کہ میں نے اپنی زوجہ کو مکمل طلاق دے دی ہے اور حق مہر میں مکان لکھا ہوا ہے جس دن طلاق دی تو اس نے کہا کہ "مجھے کچھ نہیں چاہیے میں معاف کرتی ہوں" اگلے دن اس کا والد آیا اور کہا کہ طاق نامہ لکھ دو، میں نے کہا کہ آپ کی بیٹی جوحق مہر معاف کر رہی ہے اس کا راضی نامہ لکھیں اور میں طلاق نامہ لکھ دیتا ہوں انہوں نے بات سنی اور چلے گئے۔ اگلے دن میری بیوی کا میسج آیا کہ مجھے کچھ نہیں چاہئے آپ بس طلاق نامہ میرے ابو کو لکھ دیں ورنہ میرے ابو عدالت چلے گئے تو میں کچھ نہیں کر سکوں گی کچھ دن بعد انہوں نے عدالت میں کیس کردیا ہے۔ حضرت! اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا مہر معاف ہو گیا ہے یا مجھے دینا ہوگا؟
تنقیح: آپ نے کن الفاظ سے طلاق دی ہے اور طلاق کے الفاظ کیا تھے؟ مہر اس نے کب معاف کیا ہے اور مہر کی معافی کی شرط پر طلاق دی ہے یا طلاق کے بعد عورت نے مہر معاف کیا ہے؟ اس کی مکمل تفصیل مطلوب ہے۔
جواب تنقیح:
میں پہلے ایک طلاق رمضان میں دے چکا تھا اور پھر چھ ماہ بعد میں نے اس سے کہا کہ باقی دو طلاق رہتی ہیں نا ٹھیک ہے "میں تجھے باقی دو طلاق بھی دیتا ہوں" میرے طلاق دینے کے بعد اس نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے میں معاف کرتی ہوں، مہر کی معافی کی کوئی شرط نہیں تھی، میرے والدین میرے رویہ پر اس سے معافی مانگ رہے تھے، اس نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے میں معاف کرتی ہوں۔

جواب: واضح رہے کہ مہر عورت کا حق ہے اور جب تک شوہر مہر ادا نہ کرے وہ اس کے ذمہ میں برقرار رہتا ہے ‏اور جب تک عورت کسی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی اور دلی رضامندی سے مہر معاف نہ کرے، مہر معاف نہیں ہوتا ہے، جبکہ ‏طلاق دینے کی صورت میں مہر کی ادائیگی مزید لازم ہو جاتی ہے۔
مذکورہ سوال اور تنقیحات کے جوابات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عورت نے خوش دلی سے مہر معاف نہیں کیا، لہذا پوچھی گئی صورت میں شوہر کو چاہیے کہ وہ مہر ‏میں طے شدہ مکان عورت کے حوالے کرلے، اس کے بعد اگر عورت اپنی خوشی اور بغیر کسی دباؤ کے شوہر کو واپس ‏دے دے تو اس سے اس کاحقِ مہر معاف ہوجائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بدائع الصنائع: (291/2، ط: دار الکتب العلمية)‏
‏(وأما) بيان ما يتأكد به المهر فالمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة.‏
الدخول والخلوة الصحيحة وموت أحد الزوجين، سواء كان مسمى أو مهر المثل ‏حتى لا يسقط شيء منه بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق، أما التأكد ‏بالدخول فمتفق عليه، والوجه فيه أن المهر قد وجب بالعقد وصار دينا في ‏ذمته، والدخول لا يسقطه؛ لأنه استيفاء المعقود عليه، واستيفاء المعقود عليه، ‏يقرر البدل لا أن يسقطه كما في الإجارة؛ ولأن المهر يتأكد بتسليم المبدل من ‏غير استيفائه لما نذكر فلأن يتأكد بالتسليم مع الاستيفاء أولى.‏

البحر الرائق: (161/3, ط: دار الكتاب الاسلامي)‏
‏(قوله وصح حطها) أي حط المرأة من مهرها؛ لأن المهر في حالة البقاء حقها ‏والحط يلاقيه حالة البقاء والحط في اللغة الإسقاط كما في المغرب أطلقه فشمل ‏حط الكل أو البعض وشمل ما إذا قبل الزوج أو لم يقبل بخلاف الزيادة فإنه لا ‏بد في صحتها من قبولها في المجلس كما قدمناه وقيد في البدائع الإبراء عن المهر ‏بأن يكون دينا أي دراهم أو دنانير وظاهره أن حط المهر العين لا يصح؛ لأن ‏الحط لا يصح في الأعيان وفي أنفع الوسائل الظاهر أن الحط يرتد بالرد وإن لم ‏يتوقف على القبول كهبة الدين ممن عليه الدين إذا رد ولم أر فيه نقلا صريحا. ‏اه.‏
وقد ظفرت بالنقل صريحا من فضل الله ولله الحمد والمنة ذكر في القنية من كتاب ‏المداينات من باب الإبراء من المهر قالت لزوجها أبرأتك ولم يقل الزوج قبلت أو ‏كان غائبا، فقالت أبرأت زوجي يبرأ إلا إذا رده اه.‏
بلفظه وقيد بحطها؛ لأن حط أبيها غير صحيح فإن كانت صغيرة فهو باطل ‏وإن كانت كبيرة توقف على إجازتها فإن ضمنه الأب إن لم تجزه البنت ‏فالضمان باطل كما قدمنا نقله عن الخلاصة في باب الأولياء ولا بد في صحة ‏حطها من الرضا حتى لو كانت مكرهة لم يصح، ولذا قال في الخلاصة من ‏كتاب الهبة إذا خوف امرأته بضرب حتى وهبت مهرها لا يصح إن كان قادرا ‏على الضرب. اه.‏

رد المحتار: (113/3، ط: دار الفکر)‏
‏(قوله لكله أو بعضه) قيده في البدائع بما إذا كان المهر دينا أي دراهم أو دنانير ‏لأن الحط في الأعيان لا يصح بحر. ومعنى عدم صحته أن لها أن تأخذه منه ما ‏دام قائما، فلو هلك في يده سقط المهر عنه لما في البزازية: أبرأتك عن هذا ‏العبد يبقى العبد وديعة عنده. اه. نهر

والله تعالىٰ أعلم بالصواب ‏
دارالإفتاء الإخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 530 Dec 07, 2022
talaq k bad dabao / pressure me aakar meher muaf / maaf karna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.