resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: "مجھے ہاتھ مت لگاؤ میں تم پر حرام ہوں"کہنے کا حکم (25971-No)

سوال: مفتی صاحب! ہم میاں بیوی کے درمیان تھوڑی ناراضگی تھی، صلح کے بعد جب وہ آئی تو مجھے بار بار ہاتھ لگا رہی تھی، میں نیند میں تھا، میں نے بولا مجھے ہاتھ مت لگاؤ میں تم پر (تمہارا ہاتھ لگانا) حرام ہوں۔ باقی میرے دل میں کوئی چھوڑنے کا ارادہ یا نیت نہیں تھی، بلکہ میرے دل میں حرام سے مقصد یہ تھا کہ اُسکا ہاتھ مجھے نہ لگے۔ (باقی حرام سے میں واقف نہیں تھا کہ کیسی حرام ہو جائے گی)۔ رہنمائی فرمائیں۔

جواب: مذکورہ صورت میں اگر شوہر نے طلاق کی نیت کے بغیر یہ الفاظ کہے کہ: "مجھے ہاتھ مت لگاؤ، میں تم پر (تمھارا ہاتھ لگانا) حرام ہوں" تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، تاہم شوہر کا یہ جملہ شرعاً "ایلاء" کے حکم میں ہے۔
"ایلاء" کا حکم یہ ہے کہ اگر شوہر نے چار مہینے کے دوران اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرلیا تو طلاق واقع نہیں ہوگی اور نکاح برقرار رہے گا، البتہ اس صورت میں شوہر پر قسم کا کفّارہ ادا کرنا لازم ہوگا، لیکن اگر شوہر نے چار مہینے تک بیوی سے ازدواجی تعلق قائم نہ کیا تو اس صورت میں ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔
قسم کا کفّارہ یہ ہے کہ دس مساکین کو صبح شام (دو وقت) پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے یا دس مساکین میں سے ہر مسکین کو پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت دیدی جائے یا دس مسکینوں کو ایک ایک جوڑا کپڑوں کا دیدیا جائے اور اگر قسم کھانے والا غریب ہے اور مذکورہ امور میں سے کسی پر اس کو استطاعت نہیں ہے تو پھر کفّارہ قسم کی نیت سے مسلسل تین دن تک روزے رکھنے سے بھی قسم کا کفّارہ ادا ہوجائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الكريم : (المائدة، الاية: 89)
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ o

الفتاویٰ الهندية:(476/1، ط: المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)
الإيلاء منع النفس عن قربان المنكوحة منعا مؤكدا باليمين بالله أو غيره من طلاق أو عتاق أو صوم أو حج أو نحو ذلك مطلقا أو مؤقتا بأربعة أشهر في الحرائر۔

بدائع الصنائع:(ﻓﺼﻞ ﻓﻲ ﺷﺮاﺋﻂ ﺭﻛﻦ اﻟﻄﻼﻕ ﻭﺑﻌﻀﻬﺎ ﻳﺮﺟﻊ ﺇﻟﻰ اﻟﻮﻗﺖ ﻭﻫﻮ ﻣﻀﻲ ﻣﺪﺓ اﻹﻳﻼء،168،167/3،ط: دار الکتب العلمیة)
ﻭﺟﻤﻠﺔ اﻟﻜﻼﻡ ﻓﻴﻪ ﺃﻥ اﻷﻣﺮ ﻻ ﻳﺨﻠﻮ ﺃﻣﺎ ﺇﻥ ﺃﺿﺎﻑ اﻟﺘﺤﺮﻳﻢ ﺇﻟﻰ ﺷﻲء ﺧﺎﺹ ﻧﺤﻮ اﻣﺮﺃﺗﻪ ﺃﻭ اﻟﻄﻌﺎﻡ ﺃﻭ اﻟﺸﺮاﺏ ﺃﻭ اﻟﻠﺒﺎﺱ.
ﻭﺃﻣﺎ ﺇﻥ ﺃﺿﺎﻓﻪ ﺇﻟﻰ ﻛﻞ ﺣﻼﻝ ﻋﻠﻰ اﻟﻌﻤﻮﻡ ﻓﺈﻥ ﺃﺿﺎﻓﻪ ﺇﻟﻰ اﻣﺮﺃﺗﻪ ﺑﺄﻥ ﻗﺎﻝ: ﺃﻧﺖ ﻋﻠﻲ ﺣﺮاﻡ ﺃﻭ ﻗﺪ ﺣﺮﻣﺘﻚ ﻋﻠﻲ ﺃﻭ أﻧﺎ ﻋﻠﻴﻚ ﺣﺮاﻡ ﺃﻭ ﻗﺪ ﺣﺮﻣﺖ ﻧﻔﺴﻲ ﻋﻠﻴﻚ ﺃﻭ ﺃﻧﺖ ﻣﺤﺮﻣﺔ ﻋﻠﻲ ﻓﺈﻥ ﺃﺭاﺩ ﺑﻪ ﻃﻼﻗﺎ ﻓﻬﻮ ﻃﻼﻕ؛ ﻷﻧﻪ ﻳﺤﺘﻤﻞ اﻟﻄﻼﻕ، ﻭﻏﻴﺮﻩ، ﻓﺈﺫا ﻧﻮﻯ ﺑﻪ اﻟﻄﻼﻕ اﻧﺼﺮﻑ ﺇﻟﻴﻪ، ﻭﺇﻥ ﻧﻮﻯ ﺛﻼﺛﺎ ﻳﻜﻮﻥ ﺛﻼﺛﺎ، ﻭﺇﻥ ﻧﻮﻯ ﻭاﺣﺪﺓ ﻳﻜﻮﻥ ﻭاﺣﺪﺓ ﺑﺎﺋﻨﺔ، ﻭﺇﻥ ﻧﻮﻯ اﺛﻨﺘﻴﻦ ﻳﻜﻮﻥ ﻭاﺣﺪﺓ ﺑﺎﺋﻨﺔ ﻋﻨﺪﻧﺎ ﺧﻼﻓﺎ ﻟﺰﻓﺮ؛ ﻷﻧﻪ ﻣﻦ ﺟﻤﻠﺔ ﻛﻨﺎﻳﺎﺕ اﻟﻄﻼﻕ، ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﻨﻮ اﻟﻄﻼﻕ، ﻭﻧﻮﻯ اﻟﺘﺤﺮﻳﻢ ﺃﻭ ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻟﻪ ﻧﻴﺔ ﻓﻬﻮﻳﻤﻴﻦ ﻋﻨﺪﻧﺎ، ﻭﻳﺼﻴﺮ ﻣﻮﻟﻴﺎ ﺣﺘﻰ ﻟﻮ ﺗﺮﻛﻬﺎ ﺃﺭﺑﻌﺔ ﺃﺷﻬﺮ ﺑﺎﻧﺖ ﺑﺘﻄﻠﻴﻘﺔ؛ ﻷﻥ اﻷﺻﻞ ﻓﻲ ﺗﺤﺮﻳﻢ اﻟﺤﻼﻝ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻳﻤﻴﻨﺎ ﻟﻤﺎ ﺗﺒﻴﻦ.

الھدایة: (257/2، ط:دار احیاء التراث العربی)
وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها " لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله.

واللّٰہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce